ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
گئی تھیں - جس کی آپ نے تجدید کی اور زندہ فرمایا - حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ کی مجددیت کی گواہی سب سے پہلے حضرت مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی نے دی تھی اور اس کے ساتھ آپ کا ادعاء بھی شامل تھا - اور وہ ادعا کے لئے مامور تھے - یہاں میں اپنے علم کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی مجددیت کی شہادت سب سے پہلے میں دیتا ہوں یا کم سے کم تحریری شہادت گو بعد میں بلا کسی اعلان واہتمام کے خود بخود صدہا بندگان خدا کے قلم سے یہ لقب لکھا جانے لگا اور ممکن ہے کہ کسی کے قلم سے مجھ سے بھی ( کچھ یاد پڑتا ہے کہ مولوی محمد بیگ صاحب دہلوی نے غالبا اس کے قبل لکھا تھا مگر ماتن صاحب نے اپنے علم کے اعتبار سے صحیح فرمایا ) پہلے نکلا ہو مگر فرق صرف اس قدر ہے کہ میں بہ نسبت مولانا عبد الحکیم کے ایک ذرہ بے مقدار اور ان کی جوتی کی برابری بھی نہیں کرستا - وہ شہباز علم وعمل تھے لیکن خدا سے مجھے امید ہے کہ میری یہ شہادت بے وقعت نہ ہوگی وہاں دعویٰ بالماریت تھا - یہاں دعویٰ نہیں - وہاں خود حضرت مجدد صاحب قدس سرہ نے ان سنن کو گنوایا ہے جن کو آپ نے زندہ فرمایا تھا - یہاں سکوت ہے ادوسر گنوارہا ہے - حضرت مجددی الف ثانی رحمہ اللہ سے مشابہت : اس کے علاوہ اصحاب بصیرت سے ہرگز مخفی نہیں رہ سکتا کہ حضرت حکیم الامۃ کی تعلیم جناب مجدد صاحب رحمہ اللہ کی تعلیم سے بالکل اشبہ ہے اور دونوں کی رفتار ذہن بھی بالکل یکساں ہے جس شخص کو اعتماد نہ ہو وہ حضرت مجدد صاحب کے مکتوبات اور حضرت کے مواعظ اور تربیت السالک کے اجزاء مقابلہ میں رکھ کر دیکھے - ہاں فرق اس قدر پائے گا کہ وہاں اصطلاحات نقشبندیہ میں مطالب اور مقاصد ادا ہوتے ہیں - یہاں اصطلاحات کی پابندی نہیں کی جاتی بلکہ جس طرح کوئی سمجھ سکے سمجھادیا جاتا ہے - یہ بھی ایک مردہ سنت تھی جس کو زندہ کیا گیا ہے ونیز حضرت مجدد صاحب کو اپنی مجددیت کا منجانب اللہ علم کرایا گیا تھا لیکن مجھے معلوم نہیں کہ حضرت پیر و مرشد کو بھی اپنے مجددیت کا علم ہے یا نہیں کیونکہ مجددیت کے لئے لازم نہیں کہ صاحب مجددیت کو بھی اس کا علم ہو - اہتمام سنت اور اس تفاوت سے تفاضل یا توازن مقصود نہیں بلکہ واقعات کا اظہار ہے باقی الفضل للمتقدم کا کس کو انکار ہے - اسی طرح مجلس کی ہیبت کذائی میں بھی سنت کا لحاظ رہتا ہے جس کے