اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ورد میں ناغہ ہوجائے تو حق تعالیٰ ملائکہ سے فرماتے ہیں کہ اس کا ثواب پورا ہی لکھو ۔یعنی سفر اور بیماری میں گووِرد میں ناغہ ہوجاتاہے مگر ثواب ان دنوںکے برابر ہی ملتا ہے جن میں ورد کا ناغہ نہیں ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر اختیاری عذر کی وجہ سے اگر اعمال میں کمی آوے تو ثواب کم نہیں ہوتا۔ پھر اس کی کیا وجہ کہ حیض وغیرہ میں عورتوں کی نماز ناغہ ہوتی ہے تو اس کو نقصان کا سبب شمار کیا گیا، وہ بھی تواعذارِ غیر اختیاری ہیں؟ بلکہ بظاہر ان کا غیر اختیاری ہونا سفر سے زیادہ ہے ،کیوںکہ سفر من وجہٍ اختیاری ہے اور من وجہٍ غیراختیاری ،یعنی سفر شروع کرنے کے بعد تو اوقات پرقبضہ نہیں رہتا اور مجبوراً اوراد ناغہ ہوجاتے ہیں، لیکن سفرکا شروع کرنا تو اختیاری امر ہے۔ اگرہم سفر ہی نہ کرتے تو اس کی نوبت نہ آتی۔ پس سفر انتہاء غیر اختیاری ہے اور ابتداء اختیاری ہے۔ یہ سوال میرے ذہن میں ابھی آیا ہے اور جواب بھی اسی وقت ذہن میں آگیا ہے۔ وہ یہ کہ عذر کی دو قسمیں ہیں:ایک عذرِ اتفاقی ،دوسرے عذر ِمُستمِر۔ قانونِ شریعت میں غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ عذر اتفاقی وعذرِ مُستمِر میں فرق ہے۔ عذرِ اتفاقی سے ثواب کم نہیں ہوتا ،اور عذرِ مُستمِر موجِبِ نقصانِ اجر ہوتاہے۔ چناںچہ موت سے بڑھ کر عذرِ غیر اختیاری کون سا ہوگا لیکن نصوص سے معلوم ہوتاہے کہ موت سے اجروثواب منقطع ہوجاتاہے۔ چناںچہ ایک حدیث میں ہے کہ دو شخص ایک ساتھ اسلام لائے تھے اور دونوں کے اعمال بھی برابر تھے۔ ان میں سے ایک صاحب تو کسی غزوہ میں شہید ہوگئے اور دوسرے ان کے بعد ایک ہفتہ کے فاصلہ سے انتقال کرگئے۔ صحابہ کو یہ خیال ہوا کہ پہلا شخص شہید ہوکرمرا ہے اور یہ بستر پر مرا ہے، اس لیے شاید اس کا درجہ اس سے کم رہے تو انہوں نے دوسرے کے حق میں یہ دعا کی: اَللّٰہُمَّ أَلْحِقْہُ صَاحِبَہُ کہ اے اللہ! اس کو بھی اس کے ساتھی کے درجہ میں پہنچا دیجیے، تو حضورﷺ نے فرمایا: وَأَیْنَ صَلَا تُہُ وَصِیَامُہُ وَقِیَامُہُ بَعْدَہُ، أَوْ کَمَا قَالَ کہ اس نے جو اس کے بعد ہفتہ بھر نمازیں پڑھی ہیں اور روزے رکھے ہیں اور تہجد کی نماز پڑھی ہے، یہ اعمال کہاں چلے گئے ؟یعنی تم نے اس کے لیے پہلے شخص کے برابر ہونے کی کیوں دعا کی۔ اس نے جو اس کے بعد اعمال کیے ہیں ان کا ثواب بھی تو اس کے نامۂ اعمال میں لکھا گیا ہے تو یہ اس سے بڑھا ہوا ہے۔ چناںچہ آپ نے اس شخص کے بارے میں تصریحاً فرمایا کہ واللہ! دونوں کے درجہ میں ایسا تفاوت ہے جیسا آسمان وزمین کے درمیان میں۔ رہی یہ بات کہ پہلا شہید تھا اور یہ شہید نہیںہوا، تو اس سے اس کا درجہ کم ہونا لازم نہیں آتا ۔کیوںکہ شہادت کے لیے یہ بھی تیار تھا ۔جہاد میں دونوں شریک ہوئے تھے، اب یہ اور بات ہے کہ اس کا وقت آگیاتھا وہ شہید ہوگیا ،اس کا وقت نہ آیا تھا یہ قتل نہ ہوا ،مگر نیت دونوں کی برابر تھی، اس لیے شہادت کا اجر اس کے لیے بھی ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ موت سے اجر منقطع ہوجاتا ہے۔ اور ایک حدیث میں اس سے بھی زیادہ تصریح ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں: