اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیوںکہ عمل کرنے والا یوں سمجھتاہے کہ میرا عمل کسی کام کا تو ہے نہیں، پھر میں کیوں تکلیف اٹھاؤں اور دوسرے کاموں میں کیوں خرچ کروں۔بعض واعظ صرف ترہیب کرتے ہیں بعض واعظ ایک طرف سے سب کو ایک ہی طرح ہانکنا شروع کردیتے ہیں۔ ان کے تمام بیان میں ترہیب ہی ترہیب ہوتی ہے، انھوںنے ترغیب کاسبق ہی نہیںپڑھا۔بس ان کا وعظ یہ ہوتاہے کہ تمہاری نماز کچھ نہیں، تمہارا روزہ کچھ نہیں، حج تمہارا بے کار، زکوٰۃ تمہاری فضول۔ اس کا اثر یہ نہیںہوتا کہ سننے والے نماز، روزہ اور اعمال کی اصلاح کریں، بلکہ ہمت ہار کر جوکچھ برا بھلا عمل کرتے تھے اس کو بھی چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ جیسے ایک گنوار کا قصہ ہے کہ گاؤں میں ایک واعظ صاحب آئے اور انھوں بیان کیا کہ جب تک نیت نہ کرے روزہ نہیں ہوتا اورنیت بتائی کہ یوں کہنا چاہیے: بصوم غد نویت۔ کوئی ایسے ہی ٹٹ پونجیا واعظ ہوں گے جیسے گشتی واعظ اور کھانے کمانے والے ہوا کرتے ہیں، ورنہ نیت کی حقیقت 1بھی بیان کردیتے، پھرغلطی نہ ہوتی۔ اگلے دن کیا دیکھتے ہیں کہ دن میں چودھری صاحب بے دھڑک حقہ پی رہے ہیں۔ کہا: مردود! رمضان ہے، تونے روزہ نہیں رکھا۔کہا: مولوی جی! خفامت ہو،تم ہی نے تومسئلہ بیان کیاتھا کہ بے نیت کے روزہ نہیں ہوتا اور جونیت تم نے بتائی تھی وہ مجھے یاد نہیں ہوئی، اب اسے یاد کرکے روزہ رکھاکروں گا۔ آج میں نے سوچا کہ جب روزہ تو ہوا نہیں ،پھر حقہ کاذائقہ کیوں چھوڑوں؟ اس حکایت کو سن کر ہم لوگ ہنستے ہیں اور اس روزہ نہ رکھنے والے کو گنوار اور بے وقوف سمجھتے ہیں۔ مگر انصاف سے کہیے کہ اس میں قصور کس کا ہے؟ قصور واعظ کاہے کہ بات کہی مگر ادھوری، مسئلہ اس طرح بتایا کہ اس گنوار سے اس پر عمل نہ ہوسکا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس طرح عمل کرنا میرے بس کانہیں ہے تو عمل ہی کو چھوڑدیا۔ یہی اثر ان واعظوں کے بیان کا ہوتاہے جو نری ترہیب ہی ترہیب بگھارتے ہیں اور اس کی تائید میںپرانے بزرگوں کے مجاہدوں کے قصے بیان کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے پانی پینا چھوڑدیاتھا، فلاں بزرگ نے جوتا پہننا چھوڑدیاتھا، فلاں بزرگ نے تمام عمر میں اتنے جوکھائے تھے۔ تم کیا کرسکتے ہو؟ تمہاری کیا نماز ہے؟ تمہارا کیاروزہ ہے؟ تمہارا کیا ذکر ہے؟ کیا شغل ہے؟ بس سننے والے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم ایسے توہونے سے رہے اور بلا ایسے ہوئے کسی شمار میں نہیں، لہٰذا قصہ ختم کرو کہ کچھ بھی نہ کرو۔