اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نماز کی ضرورت ہوتی ،نہ زکوٰۃ کی، نہ حلال وحرام کے اہتمام کی، نہ رشوت چھوڑنے کی، نہ تکبرچھوڑنے کی۔ بس لا إلٰہِ إِلَّا اﷲ کہہ کر نہایت آزادی کے ساتھ زندگی بسر کیا کرتے، یہ نہایت سہل طریقہ تھا ۔اور اگر حضور ﷺ اس کو تجویز فرماتے تو لوگ نہایت آسانی سے اسلام قبول کرلیتے، مگر باوجود اس کے آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اعمال کی بھی تاکید اور تعلیم فرمائی۔صرف لَاإلٰہ إلَّا اللّٰہ پر اکتفا جائز نہیں، اعمال کی بھی ضرورت ہے : اس سے معلو م ہوا کہ صرف لَاإِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ کافی نسخہ نہیں ہے دوسرے اجزا کی بھی ضرورت ہے، مگر آج کل اہل الرائے کی عجیب حالت ہے۔ چناںچہ ایک شخص نے یہاں تک رائے دی کہ اگر سب عُلَما مل کر نماز کو اسلام سے خارج کردیں تو اسلام کو بہت ترقی ہواور اس کے باقی رکھنے سے اسلام کی ترقی رک رہی ہے، کیوںکہ جب کوئی شخص سنتاہے کہ اسلام لاکر گلے مَڑھی جائیگی تو وہ اسلام لانے سے رک جاتاہے۔ بہت سے لوگ اسلام لانے پرآمادہ ہیں، مگر نماز کی وجہ سے ہمت نہیں ہوتی ،اس لیے اس کو حذف کردینا چاہیے۔ میں کہتا ہوں کہ واقعی ظاہر میں تویہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر نماز نہ ہوتی تو مسلمان ہونا کچھ بھی مشکل نہ تھا بہت سہل ہوتا ،مگر باوجود اس کے پھر کیا وجہ ہے کہ نماز فرض فرمائی گئی اور اس کی تارک پر وعید ارشاد فرمائی اوروعید بھی ایسی ویسی نہیں بلکہ یوں فرمایا : مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ۔ جس نے عمداً نماز کو چھوڑا تو وہ کافر ہوگیا۔ یہاں ایک بات سمجھیے کہ مولویوں کی عجیب کم بختی ہے کہ جب وہ اس قسم کا مضمون بیان کرتے ہیں تو لوگ ان کو یوں کہتے ہیں کہ بس جی! ان کو تو کافر بنانا آتاہے ۔بھائی! یہ تو رسول اللہﷺ کا فتویٰ ہے، مولویوں کے گھر کی تو بات نہیں ۔اوراگر کہو کہ حدیث کوئی چیز نہیں، چناںچہ ایسے لوگوں میں سے بعض اس کے بھی قائل ہیں، تو صاحبو! قرآن شریف کا سیاق وسباق بھی تو تارک نماز کو مشرک بتلا رہاہے۔ چناںچہ ارشاد ہے: {أَقِیْمُوْ الصَّلٰوۃَ وَلاَتَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ}(الروم:۳۱)