اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دلوانے کو پھرتے ہیں۔ جب تک خاص سورتیں پڑھ کر فاتحہ نہ دی جائے ثواب ہی نہیں ہوتا۔ اور مصلح کو کہتے ہیں کہ یہ منکرہے ثواب کا ۔ میں کہتاہوں کہ اگر ایک شخص بے وضو اور قبلہ کو چھوڑ کر نماز کے لیے کھڑا ہوا اور کوئی اس کو منع کرے تو کیا وہ نماز کا منکر سمجھا جاوے گا۔ اسی طرح اس شخص کو جو قیودِ مروّجہ کے ساتھ فاتحۂ مروّجہ یامیلادِ مروّج کو روکے تو کہتے ہیں کہ یہ ذکر رسولِ ﷺ کا منکر ہے۔ ہم کہیں گے کہ جس طرح وہ نما زکا انکار نہیں یہ ذکر کا انکار نہیں۔ ہاں تمہارے اس بے ڈھنگے پن سے دونوں جگہ روکتے ہیں۔ لوگوں نے اپنی طرف سے اختراعات کرلیے ہیں۔ ان لوگوں کی بالکل ایک نئی شریعت ہوگئی ہے۔ ایک نیامذہب ہوگیاہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا حضور ﷺ کی ہر تعلیم کے مقابلہ میں لوگوں نے ایک ایک رائے تجویز کر رکھی ہے۔ ہر امر میں مقابلہ کیا گیا ہے۔ شادی میں، غمی میں، بیع میں، شِرا میں۔ ہمارا یہ اسلام وایمان ہے کہ شادی غمی میں بھی رسول اللہ ﷺ ہی کا اتباع کرنا چاہیے۔ اور عورتوں کو زیادہ خصوصیت کے ساتھ خطاب کرتا ہوں۔آیت کے تفسیری نکات : مقصود بیان تو سب ہوگیا۔ اب یہاں دو باتیں بطور نکتہ کے بیان کرنا باقی رہ گئیں۔ ایک تویہ کہ یہاں تین صفتیں بیان ہوئیں: اَلْمُحْصَنٰتِ، الْغَافِلَاتِ، اَلْمُؤْمِنَاتِ دو صفت میں توصیغہ اسمِ فاعل کالائے یعنی الْغَافِلَاتِ، اَلْمُؤْمِنَاتِ، مگر اَلْمُحْصَنٰتِ صیغہ اسمِ مفعول کا لایا گیا۔ محصنات صیغہ اسمِ مفعول کا ارشاد فرمایاگیا۔ بات یہ ہے کہ اس طرح لانے سے ہمیں ایک سبق بھی دیا ہے جس کی ضرورت چودہویں صدی میں آکر واقع ہوئی ،وہ یہ کہ اس میں مردوں کو پردہ کی تاکید کی گئی ہے، کیوںکہ اَلْمُحْصَنٰتِ کے معنی ہیں: پارسا رکھی ہوئی عورتیں، یعنی مردان کو پارسارکھیں ان کے ذمہ ہے پارسا رکھنا۔مرد کے ذمہ عورت کی عصمت کی حفاظت ہے : معلوم ہوا کہ عورت اکیلی کافی نہیں جب تک مرد اس کو محفوظ نہ رکھے۔ اسم فاعل کے صیغہ سے یہ بات حاصل نہ ہوتی ،اس لیے مفعول کا صیغہ لائے۔ دوسری یہ بات کہ بیچ میں غافلات کا لفظ کیوں؟ اس کی کیا ضرورت تھی؟ بات یہ ہے کہ اس کے بیچ میں ہونے سے دونوں صفتوں میں اتصال ہوگیا۔ اشارہ اس طرف ہے کہ قوتِ علمیہ اور عملیہ کا کمال اس پر موقوف ہے کہ وہ غافلات بھی ہوں، یعنی ان کے خیالات محدود ہوں، عرفی تبادلۂ خیالات نہ ہوں، تب ان کا علم وعمل مقصود باقی رہ سکتا ہے۔ مردوں کے لیے تو وسیع خیالات کا ہونا کمال ہے اور عورتوں کے لیے یہ کمال ہے کہ غیر وسیع الخیال ہوں، ان کا مکان بھی محدود، آناجانا بھی نہ ہو، علم بھی محدود، یعنی صرف دین ہی کا علم ہو۔ اس زمانہ میں دونوں