اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیے اچھی ہوسکتی ہے۔ عورتوں کے لیے یہی مناسب ہے کہ جب غیر مردوں سے بات کریں تو خوب روکھے اور سخت لہجہ میں اور ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ کریں۔ اول تو مردوں سے بولنا ہی نہیں چاہیے مگر بضرورت بولنا جائز ہے ،تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ سختی سے گفتگوہو تاکہ دوسرے کے دل میںکشش اور میلان پیدا نہ ہو۔ اور یہ طریقہ عورتوں کے لیے علاوہ شرعی حکم ہونے کے طبعی بھی ہے۔ افسوس ہے کہ ایک فطری اچھی خصلت کو قصداً بگاڑ ا جارہاہے۔ دیہات میںدیکھیے کہ بھنگن وچماری سے بھی خطاب کیجیے تو وہ منہ پھیر کر اول تو اشارے سے جواب دے گی۔ مثلا راستہ پوچھیے ،تو انگلی اٹھاکر بتادے گی کہ ادھر ہے، اور اگر بولنا ہی پڑے تو بہت تھوڑے سے الفاظ میںمطلب کو ادا کردے گی۔ نہ اس میں القاب ہوں گے نہ آداب، نہ ضرورت سے زیادہ الفاظ ،نہ آواز نرم ہوگی، بلکہ اس طرح بولے گی کہ جیسے کوئی زبردستی بات کرتاہے۔ چوںکہ دیہات والوں میں یہ اخلاقِ طبعی موجود ہوتے ہیں اور ان سے انحراف کے اسباب وہاں نہیں پائے جاتے، اس واسطے دیہاتیوں کے اخلاق وعادات اپنی جِبِلّی حالت پرہوتے ہیں۔حیا عورت کے لیے طبعی امر ہے حیا عورت کے لیے طبعی امر ہے اور اس کے آثار ان دیہاتی عورتوں میں جن پر زوالِ حیا کے اسباب نے اثر نہیں کیا ہے موجود ہیں۔ اس سے پتا چلتاہے کہ طبعی بات عورت کے لیے یہی ہے کہ غیر مردوں سے میل جول نہ کرے اور کوئی ایسی بات قول میں یا فعل میں اختیار نہ کرے جس سے میل جول یا کشش پیدا ہو۔ یہی شریعت کی تعلیم ہے ،تو شریعت فطرت کے بالکل موافق ہے، مگر افسوس ہے کہ آج کل طبعی اخلاق سے بُعد ہوگیا ہے اور جو باتیں بری سمجھی جاتی تھیں وہ اچھی سمجھنی جانے لگیں، حتی کہ اس قسم کے مضامین اور ایسے خیالات اور ایسے جذبات جن سے خواہ مخواہ میلان ہو آج کل ہنر سمجھے جانے لگے۔اس سے بہت ہی پرہیز کرنا چاہیے، اللہ محفوظ رکھے۔ یہ اثر اس نئی تعلیم کاہے، اس لیے یہ تعلیم تعلیم نہیں بلکہ تجہیل ہے اور عورتوں کے لیے تو نہایت ہی مضر ہے۔ عورتوں کے لیے تعلیم کا وقت بچپن کا وقت ہے، مگر آج کل شہروں میں بچپن ہی سے لڑکیوں کو نئی تعلیم دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس تعلیم کے آثار ونتائج ان کی رگ وپے میں سرایت کرجاتے ہیں پھر دوسری کوئی تعلیم ان پر اثر کرتی ہی نہیں۔ لڑکیوں کی مثال بالکل کچی نرم لکڑی کی سی ہے ،اس کو جس صورت پر قائم کرکے خشک کردوگے تمام عمر ویسی ہی رہے گی۔ جب بچپن ہی سے نئی تعلیم دی گئی، نئے اخلاق سکھائے گئے، نئی وضع قطع، نیا طرزِ معاشرت ان کی نظروں میں رہا تو وہ اسی میں پختہ ہوگئیں۔ بڑی ہوکر ان کی اصلاح کسی طرح نہیں ہوسکتی۔