اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
{ مَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَ ہُوَ شَہِیْدٌo}(ق:۳۷) جو شخص قلب کو حاضر کرے اور کا ن لگا کر سنے۔ سوواقع میں یہ شبہ قرآن پر نہیں ہے۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ طبیب کہتا ہے کہ دوا نافع ہے۔ سومعنی اس قول کے یہ ہیں کہ اس کا نفع بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ سو اگر کہیں نفع ظاہر نہ ہو تو یہ نہیں کہ دوانافع نہیں، نافع یقینا ہے مگر بوجہ فقدانِ شرائط کے اس کا نفع ظاہر نہیں ہوتا۔ پس جس طرح اطِبَّا دوا کی خاصیت بیان کرتے ہیں اسی طرح حق سبحانہ وتعالیٰ اور جنابِ رسول اللہﷺ اعمال کی خاصیت بیان فرماتے ہیں۔ پس جیسے اس دوا کی غایت کا ظاہر ہونا مشروط ہے بشرائط، اسی طرح اعمال کے لیے بھی شرائط ہیں اور وہ شرط حق تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ چناںچہ ارشاد ہے: {اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَ ہُوَ شَہِیْدٌo}(ق:۳۷) یعنی اس میں ایسے شخص کے لیے نصیحت ہے جس کے قلب ہو یاکان لگا کر سنے۔ اور بھی جابجا قرآن میں ان شرائط کو بیان کیا ہے کہیں ہے یَتَدَبَّرُوْنَ ، کہیں ہے یَتَذَکَّرُوْنَ، کہیں ہے یَتَفَکَّرُوْنَ، کہیں ہے لِیَدَّبَّرُوْ اٰیٰتِہٖ، کسی جگہ ہے وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوالْاَلْبَابِ۔وعظ کا نفع کس کو ہوگا؟ یہ آیتیں بتلا رہی ہیں کہ جو شخص سوچے ،یاد رکھے، خیال کرے، قصد بھی کرے ،ہمت بھی کرے تو اس کو نفع ہوگا۔ اگر کوتاہی ہوجاوے۔ تو توبہ کرے متوجہ ہوجاوے مگرہماری حالت یہ ہے کہ نہ سوچتے ہیں،نہ یاد رکھتے ہیں، نہ خیال کرتے ہیں ، نہ قصد ،نہ ہمت ،نہ عمل، تو نفع بھی نہیں ہوتا۔ سو نفع نہ ہونے پر تعجب کرنا ہی بے بنیاد ہے۔ اور میں تو یہ کہتاہوں کہ وعظ سے اگر توفیق ہوکر گناہ کم ہونے لگیں تو اتنا نفع کیا کم ہے۔ بلکہ اور ترقی کرکے کہتا ہوں کہ اگر گناہ ترک نہ ہوں محض توبہ کی توفیق ہوکر گذشتہ ہی گناہ معاف ہوجاویں تو خود یہ کتنا بڑا نفع ہے، خواہ پھر گناہ ہی کیوں نہ ہونے لگیں۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ کوئی بخار میں مبتلا ہوتا ہے یا اور کوئی شکایت ہوجاتی ہے موسم میں ،ہم نے نہیںدیکھا کہ اس نے علاج نہ کیا ہو محض اس خیال سے کہ اگر اچھا بھی ہوگیا تو اگلے سال پھر بیمار ہوجاؤں گا۔وہاں توعلاج کونافع سمجھ کر کر لیا جاتاہے، مگر یہاں یہ خیال ہوتاہے کہ ایسی توبہ سے کیا فائدہ کہ پھر گناہ ہوجاوے، اس لیے جب ساری عمر گزر چکے گی اس وقت توبہ