اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
بھی نوکر ہوئی تو ان کو چُولہے کی بھی خبر نہیں ہوتی۔ اب نوکرانی سیاہ وسفید جو چاہے کرے۔ غرض شوہر کے مال کی حفاظت کاعورتوں کو مطلقاً خیال نہیں ہوتا۔مردوں کی کوتاہی : اسی طرح مردوںکو عورتوںکے حقوق میں سے صرف بعضے دنیوی امور کاتو اہتمام ہے، یعنی زیور کپڑے کا یا کھانے پینے کا، باقی ان کے دین کی اصلاح کا کچھ بھی اہتمام نہیں۔ تو دونوںنے دو دو قسم کی کوتاہیاں کر رکھی ہیں۔ دو قسم کی مردوں نے اور دو قسم کی عورتوں نے۔ مجموعہ چار قسم کی کوتاہیاں ہوئیں۔ مردوں سے ایک کوتاہی تو یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذمہ صرف دنیوی حقوق سمجھتے ہیں، دینی حقوق اپنے ذمہ سمجھتے ہی نہیں کہ ہمارے ذمہ ان کے دین کا بھی کوئی حق ہے۔ مثلاً گھر میں آکر یہ تو پوچھتے ہیں کہ کھانا تیارہوا یا نہیں؟ مگر یہ کبھی نہیں پوچھتے کہ تم نے نمازبھی پڑھی یا نہیں۔ اگر کھانا کھانے گھر میں آئے اور معلوم ہوا کہ ابھی تیار نہیں ہے تو خفا ہوتے ہیں یا تیار تو ہوگیامگر مرضی کے موافق تیار نہیں ہوا تب بھی خفا ہوتے ہیں۔ اور اگر کبھی یہ معلوم ہوا ہو کہ بیوی نے اس وقت کی نماز اب تک نہیں پڑھی تو ان کو ذرا بھی ناگواری نہیں ہوتی، نہ بی بی پر خفا ہوتے ہیں۔ بلکہ اگر کسی کی بیوی عمر بھر بھی نماز نہ پڑھے تو بہت مردوں کو اس کی بھی پرواہ نہیں ہوتی۔ اور جو کبھی کسی کوکچھ خیال بھی ہوتاہے اور یہ وہ ہیں جو دین دار کہلاتے ہیں تو وہ بھی یوں ہی چلتی سی بات کہہ دیتے ہیں کہ’’بی !نماز پڑھا کرو ،نماز کا ترک کرنا بڑا گناہ ہے‘‘۔بس اتنا کہہ کر اپنے نزدیک یہ سبک دوش ہوگئے۔ اور جب کسی نے اُن سے کہا کہ تم اپنی بی بی کو نماز کے لیے تنبیہ کیوں نہیں کرتے؟ تو یہ جواب دیتے ہیں کہ کہہ تو دیا تھا، اب وہ نہیں پڑھتی تو میں کیا کروں؟لیکن میںکہتاہوں کہ انصاف سے بتائیے !کیا آپ نے نماز کے لیے اسی طرح کہاتھا جیسے نمک تیز ہونے پر کہاتھا۔ اوراگر ایک دو دفعہ کے کہنے سے اُس نے نمک کی درستی کا اہتمام نہ کیا تو وہاں بھی آپ ایسے ہی خاموش ہوجاتے ہیں جیسے نماز کے لیے ایک دو دفعہ کہہ کر خاموش ہوگئے؟ ہرگز نہیں۔ نمک تیز ہونے پر تو آپ سر توڑنے کو آمادہ ہوجاتے ہیں اور ایسی بری طرح خفگی ظاہر کرتے ہیں کہ بی بی سمجھ جاتی ہے کہ میاں بہت ناراض ہوگئے ہیں، اس لیے وہ بہت جلد نمک کی اصلاح کا اہتمام کرتی ہے۔بیوی کو نماز پر کبھی تنبیہ نہیں کی :