اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قرآن وحدیث ایسے وقت پڑھانا چاہیے کہ دماغ فلسفہ ومنطق سے متاثر نہ ہوا ہو ۔ بہرحال اس وقت نقصان دین وعقل کی علامت کو بیان کردینا کافی ہوگیا، اور اگر آج یہ کافی نہیں ہے تو حقیقت کے بتلانے والے بھی بفضلہ تعالیٰ موجود ہیں۔ اورنقائص اختیاری تو اس لیے بیان فرمائے ہیں کہ اپنے نقائص پر مطلع ہوکر ان کے علاج کی فکر کریں۔ اور نقائص اضطراری غیر اختیاری جو معالجہ سے نہیں جاسکتے ان کو اس لیے بیان فرمایا کہ اپنے اندر ان نقائص کو دیکھ کر کبر اور پندار جاتا رہے، اس لیے کہ عورتوں میں کبر اور پندار کا بہت مرض ہے ،ذرا سا کمال ہوتاہے اس کو بہت کچھ سمجھتی ہیں۔تکبر کا منشا اور بنیاد جہالت ہوتی ہے : اورمنشا اس عجب وکبر کا ہمیشہ جہل ہوتاہے۔ بڑا عالم اپنے کو وہی سمجھتا ہے جو کچھ نہ ہو۔ کیوںکہ جو واقع میں بڑا ہوگا اس کی نظر کمال کی حدِ آخر تک ہوگی اور اپنے کو اس سے عاری دیکھے گا، اس لیے ممکن نہیں کہ اپنے کوبڑا سمجھے۔البتہ ایسے شخص کو اپنا بڑا سمجھنا شایان ہے( جو تمام مراتبِ کمال کو جامع ہو اور وہ صرف ایک ذات وحدہ لاشریک ہے ،اس لیے متکبر اس کا کمالی نام ہے۔ اس کے معنی ہیں:اپنے کو بڑا سمجھنے والا۔ سوچو کہ واقع میں حق تعالیٰ بڑا ہے، اس لیے اگر وہ اپنے کو بڑا نہ جانتا تو یہ جہل ہوتا اور جہل نقص ہے اورحق تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہیں۔ بس خدا کا تو یہی کمال ہے کہ وہ اپنے کو بڑا جانے اور بندہ کا کمال یہ ہے کہ اپنے کو چھوٹا سمجھے، اگر وہ اپنے کوبڑاسمجھے تو یہ نقص ہوگا۔ حدیثِ قدسی میں ہے: اَلْکِبْرِیَائُ رِدَائِيْ، وَالْعَظَمَۃُ إِزَارِي فَمَنْ نَازَعَنِيْ فِیْہِمَا قَصَمْتُہُ۔ یعنی عظمت وکبریا میرا خاصہ ہے، جیسے اِزار اور رِدا اِنسان کاملبوسِ خاص ہوتاہے۔ پس جو شخص مجھ سے (ان صفات میں) کھینچا تانی کرے گا، میں اس کی گردن توڑدوں گا۔ ا س سے معلوم ہوا کہ عظمت اور بڑائی حق تعالیٰ کی صفات ِخاصہ میں سے ہیں، اس لیے بندہ کا کمال اپنے کو عاجز سمجھنا ہے۔ چناںچہ جن حضرات کے قلب میں حق تعالیٰ کی عظمت اور کبریا آگئی ہے وہ اپنے کو ہیچ در ہیچ سمجھتے ہیں۔ جس شخص کی رستم کی قوت پر، حاتم کی سخاوت پر نظر ہوگی وہ اپنے کو قوی اور سخی نہ سمجھے گا۔جس کے پیشِ نظر جناب رسول اللہ ﷺ کا علم ہوگا، وہ اپنے کو تو کیا عالم سمجھے گا؟ آج کل یہ خبط ہوگیا ہے کہ تھوڑا سا کمال ہوجاتاہے تو اپنے کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں اور عورتوں میں یہ مرض زیادہ ہے۔ اگرکوئی عورت ذرا نماز اور تلاوت کی پابند ہو جاتی ہے تو اپنے کو ’’رابعہ ‘‘سمجھنے لگتی ہے اورہر ایک کوحقیر سمجھتی ہے، اور وجہ اس کی بھی ہے کہ ان کی کسی نے تربیت نہیں کی، کتابیں پڑھ پڑھ کر دین دار ہوجاتی ہیں۔ پس اُن کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی کتبِ