اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نکاح میں سادگی کااہتمام : اور حدیث سے تو یہی ثابت ہے کہ نکاح نہایت سادی چیز ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت فاطمہؓ کا نکاح ہواتھا ،تو حضرت علیؓ مجلس میں موجود بھی نہ تھے۔ حضور ﷺ نے خطبہ پڑھ کر یوں فرمایا تھا کہ إِنْ رَضِيَ عَلِيٌّ بِذٰلِکَ یعنی اگر علی اس نکاح کو منظور کریں۔ جب علی کو خبر ہوئی تو انہوں نے فرمایا :میں نے قبول کیا۔ کیسا سادہ نکاح تھا کہ جہاں دولہا بھی موجود نہ تھے۔ بعضے اس سادگی کی وجہ میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ ﷺ کے پاس تھا ہی کیا ؟ فقر وفاقہ کی حالت تھی۔ تو خوب سمجھ لیجیے کہ حضور ﷺ کو کمی کس بات کی تھی۔ جہاں جبرائیل ؑ دربانی کریں۔ اگر آپ ﷺ چاہتے تو ملائکہ آتے، جنت سے جوڑے جہیز میں لاتے۔ حضور ﷺ کی شان کیا پوچھتے ہو؟ اولیاء اللہ عجب عجب شان کے ہوئے ہیں کہ ان کی مرادیں مسترد نہیں ہوتیں۔ کیا حضور ﷺ خواہش کرتے اور وہ مسترد ہوتی؟ حاشا وکلّا! پھر رشتہ ہوا تو کس طرح کہ نہ نائی، نہ ڈوم، نہ رسم، نہ نشانی، صرف زبانی درخواست، زبانی منظوری۔پہلے شیخین نے اپنے بارے میں حضور ﷺ سے فاطمہ کے نکاح کی بابت عرض کیا تھا کہ یہ شرف ہم کو حاصل ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ کی عمر کم ہے، تم سے مناسب نہیںہے۔ پھر شیخین نے حضرت علی کو رائے دی کہ تم اپنے لیے عرض کرو۔ حضرت علی شرماتے تھے۔ ہمت دلاکر بھیجا کہ جاؤ ، اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضرات شیخین اور حضرت علی میں کیسا اتحاد تھا۔ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرم غالب آئی ،چپکے بیٹھ گئے۔ اسی وقت وحی آئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو خدا تعالیٰ نے حکم کیا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح تم سے کردوں، یہ تو رشتہ تھا۔ پھر نکاح ہوا تو کس طرح کہ نکاح کے وقت آپ ﷺ نے ایک صحابی سے فرمادیا کہ جو کوئی مل جاوے اسے بلالو ،پہلے سے کوئی اہتمام نہ کیا۔ نکاح کے بعد امّ ایمن ؓ سے فرمادیاکہ حضر ت فاطمہ کو پہنچا دو۔ وہ برقعہ چادر پہنا کر ہاتھ پکڑ کر جاکر پہنچا آئیں۔ اگلے دن حضور ﷺ ان کے گھر تشریف لائے ،فاطمہ دلہن تھیں۔ ان ہی سے کہا کہ برتن میں پانی لاؤ۔ یہ دلہن ہے کہ شوہر کے سامنے پھر رہی ہیں۔ آپ ﷺ نے پانی ان کے منہ اور ہاتھ پر اور پشت پر چھڑکا۔ پھر اسی طرح حضرت علی کے ساتھ کیا۔ غرض آپ ﷺ نے دکھا دیا نمو نہ امت کو کہ کیا کیا کرو۔غمی کی رسمیں : اسی طرح غمی میں بھی کچھ نہیں کیا ،صرف ایصالِ ثواب کردیتے تھے۔ سعد ؓ کی ماں مرگئی تھیں، انہوں نے کنواں بنوا کر کہہ دیا: ھٰذَا لِأُمِّ سَعْدٍ، کہ اس کا ثواب سعدکی ماں کے لیے ہے۔ نہ فاتحہ دلائی، نہ کچھ کیا۔ اب تو مٹھائی کے دُونے لیے نیاز