اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو رَاعِنَا کہنے سے کیوں منع فرمایا؟ کیا معاذ اللہ! صحابۂ کرام کے ذہن میں اس کے معنی کچھ بُرے تھے؟ ہرگز نہیں بلکہ محض اس لیے کہ یہ لفظ مُوہِم ہوتاہے برے معنی کو ۔ اور دشمنوں کو موقع ملتا ہے کہ اس کو بُرے معنیٰ کا قصدکرکے استعمال کریں۔اس قاعدہ کے تحت میں یہ نظم بھی داخل ہے، گو قائل کا قصد برا نہ ہو۔ پس اس کا پڑھنا اور سننا اور پڑھوانا سب ناجائز ہے۔ناول اور افسانے : پس یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عورتوں کے نصابِ تعلیم میں تمام فضول اورخرافات قصے ہی رہ گئے۔ اور یہاں تک بھی بس تھی۔ اب تو غضب یہ ہے کہ عورتیں ناول پڑھتی ہیں جس سے اخلاق بہت ہی خراب ہوجاتے ہیں۔ ان ناولوں کی بدولت شُرفاکے گھروں میں بھی بڑے بڑے واقعات شرمناک وقوع میں آچکے ہیں، مگر اب بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ میں کہتا ہوں کہ ان ناولوں سے تو وہ پرانی کتابیں قصہ گل بکاؤ لی وچہاردرویش وطلسم ہوشربا ہی غنیمت ہیں، اگرچہ میں اُن کے دیکھنے سے بھی عورتوں کو سختی سے منع کرتاہوں۔ مگر واللہ! ان ناولوں سے وہ ہزار درجہ بہتر ہیں۔ ان کے برابر وہ اخلاق کو خراب نہیں کرتیں۔ قصے گو ان میں بھی خرافات ہی ہیں ،مگر تدابیر اختلاط وحیلہائے وصول الی المقصود(مقصود تک پہنچنے کے حیلے) ان میں ایسے بتلائے ہیں جو نہایت متعذرالحصول(جن کا حاصل ہونا دشوار ہے) اور دشوار ہیں۔ مثلاً شاہ زادے کاگل بکاؤلی کے باغ میں پہنچنا کیسے ہوا کہ راستہ میں ایک دیو ملا اس کو اس نے ماموں بنایا، اسے اس پر رحم آیا اور اس نے باغ میں پہنچادیا۔ اسی طرح چہار درویش کے قصے میں بھی تمام صورتیں حصولِ مقصود کی ایسی ہیں جو انسان کے قبضہ کی نہیں ہیں ،خدا ہی چاہے تو ان طریقوں سے مقصود میسر آسکتا ہے۔ اور ان کم بخت ناولوں میں تو ایسی سہل سہل ترکیبیں لکھی ہیں جن سے ہر شخص کام لے سکتاہے۔ مثلاً یہ کہ عاشق نے کسی نین کو یا جلُاہی کولالچ دیا کہ میں تجھ کو اتنے روپے دوں گا، تو فلاں لڑکی سے مجھ کو ملادے۔ اب یہ ترکیب اتنی آسان ہے کہ جس کے پاس روپیہ ہووہ اس سے بآسانی کام نکال سکتاہے، کیوںکہ ایسی عورتیں بہت جلد لالچ میں آجاتی ہیں ،نہ ان میں دین ہے نہ حیا، نہ کسی کی آبرو کا ان کوخیال ،ان کے ذریعہ سے گھروں میں کچھ سے کچھ واقعات ہوجانا بڑی بات نہیں۔ اس لیے میں ان ناولوں کو گل بکاؤلی وغیرہ سے بھی بدترجانتاہوں۔