اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے خارج ہے۔ مثلاً کوئی تجارت کرتا ہے تو اس کو ایک تو تجارت کے اصول جاننے چاہیے ہیں اور پھر وہ اصول برتنا چاہیے۔ کوئی شخص کھیتی کرتا ہے تو پہلے طریقہ کھیتی کا معلوم کرے، پھر کھیتی کرنا چاہیے۔ اسی طرح نوکری ہے کہ پہلے اس کے اصول جاننا چاہیے۔ اس کے بعد قوت عملیہ سے کام شروع ہوتاہے۔ میں کہاں تک مثالیں عرض کروں۔ یہ بات اس قدر ظاہر ہے کہ زیادہ مثالوں کی محتاج نہیں۔غرض انسان میں ایک قوتِ علمیہ ہے جس سے نفع وضرر کوپہچانتاہے، دوسری قوتِ عملیہ ہے۔ اور انسان میں اصل بھی دوکمال ہیں ،باقی جتنے کمال ہیں وہ سب اسی کی فرع ہیں۔ اور عورتیں بھی اسی حکم میں داخل ہیں، پس ان کے کمالات بھی یہی دو ہوں گے۔ایک مقدمہ تو یہ ہوا۔قرآن شریف میں دینی کمالات مذکور ہوں گے ،دنیوی نہیں : دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ قرآن شریف میں اور اسی طرح جتنی کتابیں دین کی ہیں ،ان میں ان ہی کمالات سے بحث ہوگی جودین کے متعلق ہوں گے، گو دنیا کے کمالات کی تحصیل بھی ناجائز نہیں۔ سو قرآن شریف کے دوکام ہوں گے: ایک تو کمالات دینی کا بتلانا، دوسرا جس عمل میں مضرت آخرت کی ہو اس سے روکنا۔ جیسے طبیب کا کام ایک پرہیز کا اور دوسرے دوا کا بتلاناہے۔ یہ اس کے ذمہ نہیں کہ لذیذ کھانوں کی ترکیب بتلایا کرے۔ حکیم محمود خان کے ذمہ یہ ہے کہ دوا اور پرہیز بتلادیں، گلگلہ پکانے کی ترکیب بتلانا، یہ کام حکیم محمودخان کا نہ ہوگا۔ اگر مریض نے اجازت چاہی کسی کھانے کی،تو ترکیب اس کھانے کی خوان نعمت میں ملے گی۔ طبیب ہونے کی حیثیت سے ترکیب کھانے کی ان کے مطب میں نہ ملے گی۔ اگر کوئی ان سے کھانے کی ترکیب پوچھنے لگے تو ان کے جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ ہمارا کام یہ نہیںہے۔ جاؤ، کسی باورچی سے سیکھو۔اگر خوش ہوکر بتلا دیں تو یہ ان کی عنایت ہوگی مگر ان کے ذمہ نہیں۔ ہاں ان کا یہ منصب ہے کہ جو چیز مریض کو مضر نہ ہو اس کی اجازت دے دیں، اور اگر مضر دیکھیں تو روک دیں۔قرآن شریف کے ذمہ دو چیزیں ہیں : اسی طرح سے عُلَما کے ذمہ جو کہ قرآن شریف کے نقل کرنے والے ہیں، یا یوں کہیے کہ قرآن شریف کے ذمہ دو چیزیں ہیں: ایک امراض روحانی کی دوا بتلانا، اور دوسرے پرہیز بتلانا۔ یہ اس کے ذمہ نہیں کہ وہ دنیا کے کمالات کے طریقے بتلایا کرے کہ ربیع میں فلاں چیز بوتے ہیں، خریف میں یہ بوتے ہیں۔ مشین یوں چلتی ہے، گھڑی یوں بنتی ہے۔ گھر یوں تیار