اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے اعتبار سے یہ مضمون عام اور مشترک النفع بھی ہوگیا۔ اور نیز اس میں بعض مضامین بلا واسطہ بھی مشترک ہیں، البتہ مقصود زیادہ تر عورتوں ہی کو سنانا ہے۔ اس حدیث میں جناب رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے پانچ نقائص بیان فرمائے،دو اضطراری اور تین اختیاری۔ دو اضطراری یہ ہیں: نقصانِ عقل ، نقصانِ دین۔ اور تین اختیاری اکثارِ لعن، کفران عشیر، مرد حازم کی عقل کو سلب کرنا۔نقائصِ اضطراری : نقصان عقل ودین کی ماہیت سے سوال کے جواب میں بجائے بیان حقیقت کے، حضورﷺ نے اس کی علامتیں اس لیے بیان فرمائیں کہ مخاطب کم سمجھ ہیں، اس لیے حقیقت کے سمجھنے میں تکلف ہوتا۔ اور جہاں مخاطب کم عقل ہو ایسا ہی کرنا مناسب ہے۔ مثلاً کوئی عامی نار (آگ) کی حقیقت سے سوال کرے تو کہاجاوے گا کہ جس میں دُھواں ہوتاہے وہ نار ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ نے نقصانِ عقل کو بھی ایک علامت سے بیان فرمایا ہے،وہ یہ کہ دو عورتوں کی گواہی بمنزلہ ایک مرد کے قرار دی گئی ہے۔ اور نقصانِ دین کو بھی اس علامت سے کہ حیض کے ایام میں روزہ، نماز نہیں پڑھتی۔ اس زمانہ میں چونکہ انقیاد للحق غالب تھا، یہ علامتیں بیان کردینا کافی تھیں۔ آج کل طبائع کا رنگ بدل گیا، بجائے انقیاد کے عناد غالب ہے۔ اب تو اسی میں سوال پیدا ہوگا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ دو کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوئی؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث وقرآن کوئی فن کی کتاب نہیںہے کہ اس میں ایسی کاوش کی جاوے، بلکہ قرآن وحدیث تو طب کی سی کتابیں ہیں، اس لیے اس کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے جس نظر سے شفیق طبیب کے کلام کو دیکھا جاتاہے کہ کہیں وہ ایک مریض کی حالت کے لحاظ سے کلام کرتاہے اور کہیں دوسرے مریض کے مناسبِ حال۔ اسی واسطے قرآن وحدیث کو وہ خوب سمجھے گا جو شانِ نزول سے واقف ہو، کیونکہ اس سے معلوم ہوجائے گا کہ کس موقع پر یہ ارشاد ہوا ہے وہاں کیاحالت تھی ؟کیا مقتضیات اورخصوصیات تھیں ؟اور اسی وجہ سے ہم فہم قرآن وحدیث میں صحابہ ؓ کے سخت محتاج ہوں گے ۔بڑا فرق ہے اس شخص میں جونسخہ لکھنے کے وقت طبیب کے پاس حاضر ہواور جو حاضر نہ ہو وے، مدت کے بعد اس نے صرف نسخہ دیکھا ہو۔ جو حاضر ہے وہ مریض کے سَن اور مزاج اور دوسری خصوصیات کومشاہدہ کرلے گا۔ اس لیے نسخہ کے محل کو، وزن کو جیسا وہ سمجھے گا دوسرا شخص نہیں سمجھے گا۔ اسی طور پر قرآن وحدیث کی تفسیر میں سلف کا قول مقدم ہوگا۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن وحدیث پر اس اعتبار سے نظر نہ کرنا چاہیے کہ وہ کوئی فن کی کتاب ہے، جس میں تعریفات کے جامع مانع نہ ہونے سے یا قیود کے مفید احتراز نہ ہونے سے تصنیف کو ناقص سمجھا جاتاہے۔ اسی واسطے میری یہ رائے ہے کہ