اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسی طرح مردوں میں مشہور ہے کہ باپ کا رتبہ اتنا نہیں جتنا پیر کا رتبہ ہے۔ اس پر ان کے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں، محض قیاس ہے، جس کے مقدمات یہ ہیں: لغوی باپ سے توجسمانی فیض ہوا ہے ،اور پیر سے روحانی فیض ہوا ہے ،اس کا رتبہ اس باپ سے زیادہ ہونا چاہیے جس سے جسمانی فیض ہوا ہو۔ ان میں سے یہ مقدمہ تو مسلّم ہے کہ پیر روحانی باپ ہے، مگر یہ مقدمہ مسلّم نہیں کہ روحانی باپ کا رتبہ جسمانی باپ سے زیادہ ہے۔ اس واسطے کہ شریعت میں باپ کے حقوق جوکچھ آئے ہیں ان کو سب جانتے ہیں اور یہ حقوق اسی کے ہیں جس کو عرفاً باپ کہا جاتاہے۔ پس بدوں حکم شرعی محض تخمینی مقدمات سے فضیلت کاحکم کرنا کیسے صحیح ہے؟باپ اورپیر کے حقوق میں قولِ فیصل اصل بات صرف اتنی ہے جوباپ حقیقتاً باپ ہے وہ باعتبار دنیا کے باپ ہے اور پیرکو باعتبار دین کے باپ کہاجاتاہے۔ پس حقیقی باپ کی طرف دنیا کے حقوق راجع ہوتے ہیں اور پیر کی طرف دین کے حقوق راجع ہوتے ہیں، ان میں خلط ملط کردینے سے غلطی پیدا ہوتی ہے۔ اب فیصلہ یہ ہے کہ دنیاوی باتوں میںباپ کاحکم مقدم ہے اور دین کی باتوں میں پیرکا۔ اگرپیر دین کی کسی بات کا حکم کرے اور باپ اس سے منع کرے تو ترجیح پیر کے حکم کوہوگی۔ مثلا پیر کہتاہے کہ اس وقت نماز فرض پڑھو اور باپ کہتاہے کہ یہ وقت دنیا کے فلاں کام کا ہے، اس میں حرج ہوگا، اس وقت نماز مت پڑھو، تو پیرکاحکم مقدم ہوگا۔ اور درحقیقت اس کو پیر کاحکم کیوںکہا جاوے، یہ توخدا کا حکم ہے ،پیر تو صرف بتلانے والاہے اور ہر شخص جانتاہے کہ خدا کا حکم سب کے حکموں سے مقدم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ تقدیم ان ہی احکام میں ہوگی جوخدا تعالیٰ کا حکم ہے، یعنی مامور بہ ہے اورنوافل وغیرہ میں نہیں ہوگی ، اس میںباپ کی اطاعت پیر سے مقدم ہے، کیوںکہ نوافل من جانب اللہ مامور بہ نہیں ،محض مرغوب فیہ ہیں۔ اور اگرپیر یہ کہتا ہے کہ فلاں جگہ شادی کرلو اورباپ کہتاہے کہ وہاں شادی مت کرو، تو اس صورت میںباپ کاحکم مقدم ہوگا۔ خوب سمجھ لو ،گڑبڑ مت کرو ،ہرچیز کو اس کے درجہ میں رکھو اور افراط تفریط نہ کرو۔ پیر کا رتبہ ہر بات میں باپ 1سے زیادہ نہیں۔ بہت سے مرد بھی اسی غلطی میں مبتلا ہیں کہ پیر کارتبہ مطلقاً باپ سے زیادہ سمجھتے ہیں،حالاںکہ اس میںوہی تفصیل ہے جو میںنے عرض کی ۔اور عورتیں تو اس غلطی میں مبتلا ہیں ہی کہ پیر کارتبہ خاوند اورباپ دونوں سے زیادہ سمجھتی ہیں اور اس میں عورتوںکا تو قصور ہے ہی کہ وہ جاہل ہیں، مگرزیادہ قصور آج کل کے پیروں کا ہے کہ ان کی تعلیم ہی یہ ہے کہ پیر کاحکم مطلقاً سب سے مقدم ہے۔