اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
واسطے بندگانِ خدا نے سلطنتیں چھوڑدیں، دنیا بھر کی پروا نہ کی۔ کوئی بات تو تھی جس کی بدولت دنیابھر سے اس کو ترجیح دیتے تھے۔ تو یہ صفت جس درجہ تک بھی کسی میں ہومحمود اور مقصود ہونی چاہیے۔ مگر ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اگر طبیعت سلیم نہ ہوتو اس سے نقصان بھی پہنچتا ہے۔ چناںچہ مایوسی اور ناامیدی پیدا ہوجاتی ہے۔ انسان سمجھنے لگتا ہے کہ میں تو کچھ ہوں ہی نہیں، نہ میرا نماز روزہ کچھ ہے، نہ اتنی طاقت ہے کہ مقصود تک پہنچوں۔ مقصودہر طرح دور ہی دور ہے۔ بس اس وقت شیطان بہکاتاہے کہ ارے! بیٹھ بھی رہ، محنت بھی کرے گا، دنیا کی لذات کو بھی چھوڑے گا اور ہوتا ہوا کچھ ہے نہیں۔بس یہ شخص مایوس ہوکر کام چھوڑ بیٹھتاہے۔ یہ سب اسی تواضع کے نتائج ہیں جس کو غلطی سے علی الاطلاق محمود کہاجاتاہے اور جس میں واقع میں تفصیل ہے۔ اور یہ نہ سمجھئے کہ یہ دھوکہ عوام ہی کو لگتاہے، درویشوں کو بھی لگتاہے۔ ایک شخص ذکراللہ کرتا تھا، تہجد کو اٹھتا تھا۔ شیطان نے کہا: ارے !بڑے حوصلے کی ضرورت ہے اللہ اللہ کرنے کے لیے، تونے اتنا اللہ اللہ کیا، کیا فائدہ ہوا؟ دماغ خراب کیا، مغز مارا، مگر وہاں سے کوئی رسید ہی نہیں ملتی۔ بس وہ شخص مایوس ہوکر آرام سے مکان میں جاکرسورہا۔ اور سوتے وقت ہی نیت کرلی کہ تہجد کو نہ اٹھوں گا۔ فائدہ کیا جب اتنے دن محنت کی اور کچھ نہ ہوا، آگے ہی کیاہوگا؟ بس وہ کام سے رہ گیا۔ بہت لوگ ایسے ہیں کہ اعمالِ صالحہ پر جب ثمرات مرتب نہ ہوئے، اعمال سے بد دل ہوجاتے ہیں۔ دنیا دار تو ظاہری ثمرات کو دیکھتے ہیں اور دین دار باطنی ثمرات کو دیکھتے ہیں۔ چناںچہ دنیا داروں کی تو یہ حالت ہے کہ ذرادنیا کی فلاح میں دیر ہوئی تو دین سے بے زار ہوگئے۔ایک پیش کار صاحب مصلی پر رشوت لیتے چناںچہ ہمارے عزیزوں میں ایک صاحب انسپکٹر تھے، جو نماز نہیں پڑھتے تھے اور ان کی بیوی نمازی تھی۔ ایک دن بیوی نے کہا کہ آپ بھی نماز پڑھا کیجیے۔ کہنے لگے کہ تجھی کو نماز سے کیا وصول ہوتاہے جو میں بھی پڑھا کروں؟ وصول کیاہوتا، آج کل لوگ وصول اسے سمجھتے ہیں، جیسے ایک پیش کارصاحب تھے، وظیفچی بہت تھے، صبح کی نمازکے بعد مصلی ہی پر بیٹھے رہتے اور وظیفہ پڑھتے رہتے۔ اشراق پڑھ کرمصلی اٹھایا جاتا، مگر اس مصلی پر ہی بیٹھے بیٹھے رشوت لیتے۔ مصلی اور رشوت کابھی کیاجوڑ ملایاہے: ہر گناہ کہ کنی در شب آدینہ بکن تاکہ از صدر نشینانِ جہنم باشی