اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہیں کہہ رہاہوں بلکہ الفاظِ قرآنی صاف بتاتے ہیں۔ عورتوں کامردوں سے نرم گفتگو کرنا یہ اثر رکھتا ہے کہ ان کے دلوں میں طمع پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس پر بھی بس نہیں کیا ،بلکہ اس کے بعد یہ حکم بھی ہے {وَّ قُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا}(الأحزاب: ۳۲)، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب بات کرو بھی تو ایسی بات کرو جس کو شریعت میں اچھا ماناگیا ہو۔ایک تویہ کہ بے ضرورت الفاظ مت بڑھاؤ ،کیوںکہ شریعت اس کو کسی کے لیے پسند نہیں کرتی۔ شریعت نے کم بولنے ہی کو پسند کیاہے۔ دوسرے یہ کہ ہر بات کو سوچ کر کہو، کوئی بات گناہ کی منہ سے نہ نکل جاوے۔ مختصر ترجمہ معروف کا معقول ہے، تو یہ معنی ہوئے کہ معقول بات کہو۔ معقول بات وہی ہوتی ہے جس سے کوئی برا نتیجہ پیدا نہ ہو۔ جب ثابت ہوچکا کہ لہجہ کی نرمی سے بھی عورتوں کے لیے برا نتیجہ پیدا ہوتاہے تو محبت پیار کی باتوں سے کیوںبرا نتیجہ پیدا نہ ہوگا، جس کو آج کل تہذیب میں داخل سمجھا گیا ہے ۔تو اس قسم کی باتیں عورتوں کے لیے معقول نہیںبلکہ نا معقول ہیں۔ اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں ہے کہ ایک بات ایک کے لیے معقول ہو اور دوسرے کے لیے نامعقول، ایک کے لیے سختی سے بات کرنا اور بے رُخی سے جواب دینا معقول ہوسکتاہے اور دوسرے کے لیے نامعقول۔مردوں کی تہذیب اور ہے، عورتوں کی اور تمہارے لیے یعنی مردوں کے واسطے باہمی کلام کا معقول طریقہ یہ ہے کہ نرمی سے بات کرو، کسی کو سخت جواب نہ دو، روکھا پن نہ برتو۔ اور عورتوں کے لیے معقول طریقہ یہ ہے کہ اجنبی کے ساتھ نرمی سے بات نہ کریں اور سختی سے جواب دیں اور روکھا برتاؤ کریں ؎ در حق او مدح در حق تو ذم در حق او شہد در حق تو سم مولانا فرماتے ہیں کہ ایک ہی بات کسی کے لیے داخلِ مدح ہوتی ہے اور دوسرے کے لیے داخلِ ذم ہوتی ہے۔ جیسے اس شبان کی گفتگو جوحق تعالیٰ کی شان میں کہہ رہا تھا کہ آپ کہاں ہیں؟ میںآپ کو دودھ پلاؤں اور کپڑوں کی جوئیں دیکھوں وغیرہ وغیرہ۔حضرت موسیٰ ؑ کو یہ گفتگو سن کر غصہ آگیا اور اس کو ڈانٹا، مگر حق تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو متنبہ فرمایا کہ ہمارے ساتھ ہر شخص کا تعلق جداگانہ ہے۔ اس حکایت کاحاصل یہی ہے کہ یہ باتیں تمہارے حق میں بری ہیں،مگر اس کے حق میں بری نہیں۔ اسی اعتبار سے اس وقت میں نے یہ شعر پڑھا ہے، مطلب یہ ہے کہ ایک ہی بات مردوں کے لیے بری اور عورتوں کے