اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خلافِ طبع ہے۔پس ثابت ہوا کہ مطلق حبس کو قید نہیں کہہ سکتے ، بلکہ حبسِ خلافِ طبع کو کہتے ہیں۔ پس آپ کو پہلے یہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان عورتیں جو پردہ میں رہتی ہیں وہ ان کی طبیعت کے موافق ہے یا خلاف؟ اس کے بعد یہ کہنے کاحق تھا کہ پردہ قید ہے یا نہیں۔مسلمان عورت کے لیے پردہ قید نہیں ہے میں آپ کو مطلع کرتاہوں کہ پردہ مسلمان عورتوں کے خلافِ طبع نہیں ہے، کیوںکہ مسلمان عورت کے لیے حیا امرِ طبعی ہے، لہٰذا پردہ حبس موافقِ طبع ہوا اور اس کو قید کہنا غلط ہے۔ ان کی حیا کامقتضیٰ یہی ہے کہ پردہ میں مستور رہیں، بلکہ اگر ان کو باہر پھرنے پر مجبور کیا جاوے، یہ خلاف طبع ہوگا اور اس کو قید کہنا چاہیے۔ غرض عَوَانٌ کے لفظ سے پردہ ثابت ہوتاہے۔عورتوںکو پردہ میں آرام پہنچانا مگر نہ ایسا پردہ جو قید کا مصداق ہو، یعنی پردہ تو ضرور ہومگر پردہ میں اس کی دل جوئی کے سامان بھی مہیا ہوں۔ یہ نہیں کہ میاںصاحب نماز کو جاویں تو باہر تالا لگاکر جائیں، کسی سے اس کو ملنے نہ دیں، نہ اس کی دُسراہٹ کاسامان کریں۔ بلکہ مردوں کو لازم ہے کہ پردہ میں عورتوں کی دلچسپی کاایسا سامان مہیا کریں کہ ان کو باہر نکلنے کی ہوس ہی نہ ہو۔ سمجھنے کی بات ہے کہ اگر مردوں کو کسی وقت وحشت ہوتی ہے تو باہر جاکرہم جنسوںمیں دل بہلاسکتے ہیں، بے چاری عورتیں پردہ میں اکیلی کس طرح دل بہلائیں؟ تم کو چاہیے کہ یاخود اس کے پاس بیٹھو یا تم کو فرصت نہیں ہے تو اس کی کسی ہم جنس عورت کو اس کے پاس رکھو۔ اگرکسی وقت کسی بات پر شکوہ شکایت بھی کرے تو معمولی بات پر برا مت مانو، تمہارے سوا اس کا کون ہے جس سے وہ شکایت کرنے جائے؟ اس کی شکایت کوناز محبت پر محمول کرو۔عورت کو خاوند کا عشق ہوتاہے