اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان پیشہ ورواعظوں نے حدیث بھی اختیار کی تو وہ جس میں ان کا فائدہ ہو، یعنی چندہ ملے۔حدیث مذکور میں یہ بات بھی تو قابل غور ہے کہ حضور ﷺ نے مِنْ حُلِیِّکُنَّ فرمایا ہے، مِنْ حُلِيِّ الزَّوْجِ نہیں فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ خیرات کرنے کی ترغیب اپنے مملوک زیور میں ہے نہ کہ خاوند کے مملوک میں۔1 عرب کی عادت تھی کہ اثاث البیت میں سے ہر چیز شوہر اور بیوی کے درمیان بٹی ہوئی تھی، عورت کی الگ، مرد کی الگ ،جیسے آج کل یورپ میںہے کہ صاحب کی چیزیں الگ ہوتی ہیں ،میم صاحبہ کی الگ۔ تو مِنْ حُلِیِّکِنَّ کے معنی یہی ہوں گے کہ اس زیور میں سے خیرات کرو جو تمہاری ملک ہو، نہ اس زیور میں جو تم پہنے ہوئے ہو اور خاوند کی ملک ہو۔گھروں میں املاک متمایز ہونے چاہئیں آج کل ہم لوگوں کی معاشرت اس قدر گندی ہوگئی ہے کہ کسی کے حق کی بھی پروا نہیں رہی اور جہالت کی یہ حد ہے کہ ہم کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ صفائی معاملات اور تمایزِ حقوق کا طریقہ ہمارے یہاں کاتھا جو اب یورپ میں ہے۔ معاملہ کی صفائی اسی کو مقتضی ہے کہ میاں بیوی کے املاک ممتاز ہوں۔ہندوستان میں بھی یہی رواج ہوجاوے تو اچھا ہے، مگر ہمارے یہاں تو حالت یہ ہے کہ گھروں میںیہ بھی نہیں معلوم کہ یہ چیز کس کی ہے اور وہ چیز کس کی؟ اس کی چیز پر وہ قابض ہے اور اس کی چیز پروہ۔ عورت کے پاس زیور ہوتاہے تو اس میں امتیاز نہیں کہ کون سا باپ کے گھر کا ہے اور کون سا خاوند کے گھر کا۔ پھر وہ عورت کی ملک کردیا گیا یا عاریت ہے؟ اگر کوئی مرد اپنے گھر میں اس کی تنقیح کرنا چاہے کہ میری ملک کون سی اور دوسرے کی کون سی ،تو اس پر بڑی انگشت نمائی ہوتی ہے اور سارے کنبہ میں بدنام کیا جاتاہے کہ لو صاحب! اپنی ذرا ذرا سی چیز فلاں شخص الگ کرتاہے اور اس قدر کنجوس ہے، اس قدربخیل ہے کہ اپنی چیز کو کسی کا ہاتھ لگنا گوارا نہیں کرتا۔ مطلب یہ کہ سخی وہ ہے جو بالکل بدانتظام، مغفّل اور مجہول ہو، جس کو نہ اپنی ملک کی خبر ہو، نہ دوسرے کی۔ پھر اس سخاوت کا لطف جب آتاہے جب ان میں سے کوئی کھسک جاوے اور ترکہ تقسیم کیاجاوے۔ اس وقت ایک کہتاہے: یہ چیز مرنے والے نے مجھ کو دے دی تھی۔ ایک کہتاہے :یہ چیز میت کی نہیں تھی میری تھی۔ ایک عورت کہتی ہے: یہ سامان میرے باپ کے گھر کاہے۔ دوسری کہتی ہے: میرے باپ کے گھر کاہے۔ اب کوئی سبیل نہیں کہ اس جھگڑے کو کس طرح طے کیا جائے۔ پھر وہ جوتی پیزار ہوتی ہے کہ دیکھنے والے ہنستے ہیں۔ اور جو کوئی خاندان بڑا مہذب ہوا تو وہاں یہ جوتی پیزار تو نہیں ہوتی، کیوںکہ یہ باتیں تہذیب اور شرافت کے خلاف ہیں مگر دلوں میں رنجشیں اور عداوتیں پیدا ہوجاتی ہیں، شکایتوں کی نوبت آتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ گھر جیل خانہ بن جاتاہے۔