اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
بعند لیب چہ فرمودئہ کہ نالاں ست پھول نے کان میںکیابات کہی کہ وہ تیرا تابع دار ہے اور عندلیب سے کیا کچھ کہا کہ وہ شکوہ کناں ہے۔ آیت {وآتَاکُمْ مِّنْ کُّلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ} کی تفسیر: اہلِ لطافت نے آیت {وآتَاکُمْ مِّنْ کُّلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ} کی تفسیر میں فرمایا ہے :أَيْ بِلِسَانِ الاِْسْتِعْدَادِ کہ جس میںجیسی استعداد تھی ویسا ہی اُس کو دیا۔ جب ثابت ہوگیا کہ جس کو حق تعالیٰ نے جوکچھ دیا ہے اس کے مناسب وہی تھا ،تو اس کے خلاف کی تمنا کرنا فضول اور بے کار ہے، بلکہ حق تعالیٰ کے فعل میں اصلاحِ دنیا ہے۔ لہٰذا عورتوںکویہ تمنا کرنا کہ ہم مرد ہوتے بے جا ہے۔ اب میں بیان کوختم کرتا ہوں۔عورتیں سب باتوں میں گھٹی ہوئی نہیں : خلاصہ یہ ہے کہ عورتیں ہر طرح مردوں سے گھٹی ہوئی نہیں جیسا عام طور سے مشہور ہے، بلکہ بعض باتوں میں مردوں کے برابر ہیں یعنی فضائلِ اضافیہ میں ،جس کے بارے میں یہ آیت ہے: { اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی}۔ اور بعض باتوںمیں مردوں سے بڑھ سکتی ہیں یعنی فضائلِ مکتسبہ میں، جس کے متعلق یہ آیت ہے: {لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ}۔ ہاں بعض باتوں میں عورتیں مردوں سے گھٹی ہوئی ہیں اور وہ امورِخلقیہ ہیں جیسے قوت، شجاعت، تدبیر وغیرہ۔ تو جس بات میںوہ مردوں کے برابر ہیں یعنی عدمِ ضیاعِ عمل اور جس بات میں ان سے کم ہیں یعنی امورخلقیہ، یہ دونوں اُن کے اختیار سے خارج ہیں۔ کیوںکہ امرِ اوّل یعنی عدمِ ضیاعِ عمل تو وعدہ ہے حق تعالیٰ کی طرف سے جس میں محض اپنے فضل سے حق تعالیٰ نے عورتوں کو مردوں کے برابر رکھا ہے ،تو وہ حق تعالیٰ کافضل ہے، نہ اُن کا، اور چوںکہ اس کا وعدہ ہے اس لیے اس کی تمنا کے کچھ معنی نہیں، ہاں دعا اس کے لیے بھی مندوب ہے۔ اور دعا کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم کو اس قابل بنادیجیے کہ ہم محلِ وعدہ بن سکیں۔ اور امورِ خلقیہ کا خارج عن الاختیار ہونا ظاہر ہے اور چوںکہ ان میں حق تعالیٰ نے مردوںکو فضیلت دی ہے عورتوںپر، لہٰذا اس کے خلاف کی تمنا کرنا یاو عدہ کرنا بھی جائز نہیں ہے، جیسے عورت تمنا کرے کہ مرد بن جائے۔ اب رہ گئے وہ امور جن میں عورتیں مردوں سے بڑھ سکتی ہیں۔ ان کاخلاصہ ہے اعمالِ شرعیہ اور اس سے بھی مختصرلفظ ہے