اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جانتے تھے کہ اُن کے والدین حضور ﷺ سے علیحدگی کی رائے کبھی نہیں دے سکتے)۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیات ان کو سنائیں۔حضرت عائشہ ؓ کو یہ مضمون سُن کر جوش ہوا اور عرض کیا: أَفِيْ ہٰذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ؟ کیامیں اس بات کے لیے اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی؟ میں نے اللہ کو اور اس کے رسول کو اور آخرت کو اختیار کیا۔حضرت عائشہ ؓ کے جواب سے حضورﷺ کی مسرت : حضور اقدس ﷺ اُن کے جواب سے بہت مسرور ہوئے توحضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کسی اور بی بی سے یہ نہ کہیے کہ عائشہ نے یہ جواب دیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اگر مجھ سے کسی نے پوچھا تو میں چھپاؤں گا نہیں۔اُلٹی گنگا : غور کرنے کی بات ہے کہ حق تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات کو زیادہ خرچ مانگنے سے تو منع فرمایا اور ان کو ناز کی بات سے منع نہیں فرمایا۔ تو معلوم ہوا کہ ناز کرنے میں اتنی برائی نہ تھی جتنی خرچ مانگنے میں تھی۔ مگر آج کل کتنی الٹ بات ہے کہ زیادہ خرچ مانگنے کو تو بُرا نہیں سمجھتے جو کسی درجہ میں مذموم بھی ہے، اور بی بی کے ناز اور بے تکلفی کوبراسمجھتے ہیں جو ذرابھی بُری بات نہیں۔ہمارے مذاق فاسد ہوچکے ہیں : اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مذاق فاسدہوچکے ہیں۔ ہمارے نفوس کی اصلاح نہیں ہوئی۔ ہمارے اندر مرض ہے جس کی وجہ سے ہر بات اُلٹی ہے کہ جو چیز ناگوار ہونا چاہیے تھی وہ تو گوارا ہے اور جوگواراہوناچاہیے تھی وہ ناگوار ہے۔ جیسے صفراوی المزاج کو مٹھائی کڑوی معلوم ہوتی ہے، تو کیا وہ مٹھائی واقع میں کڑوی ہوتی ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ صفراویت کی وجہ سے اس کا مذاق بگڑ رہا ہے۔ اسی طرح باطنی مذاق بگڑ رہا ہے ،اسی کا یہ اثر ہے کہ زیادہ خرچ مانگنے کو تو عورت کے لیے گوارا کرتے ہیں اور بے تکلفی اور ناز کی باتوںکو اس کے لیے گوارا نہیں کرتے۔ اور اسی وجہ سے حضور اقدس ﷺ کا اپنی