اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یَنْقَطِعُ أَجْرُ الْمُؤْمِنِ بِمَوْتِہٖ إِلَّا مِنْ ثَلاَثٍ۔ مومن کا اجر موت سے منقطع ہوجاتاہے بجز تین (چیزوں)کے۔ پس مرض اور سفر اتفاقی عذر ہیں ان سے اجر کم نہیں ہوتا، اور حیض ونفاس وغیرہ عذرِ مستمر ہیں اور عذرِ مستمر سے اجر کم ہوجاتاہے ۔اور راز اس میں یہ ہے کہ عذرِ اتفاقی ابتدائے عمل کے وقت ذہن میں نہیں ہوتا۔ جب آدمی کوئی عمل بہ نیت مداومت شروع کرتاہے تو اس کے ذہن میں یہ بات ہرگز نہیں ہوتی کہ اگرمیں سفر میں جاؤں گا یا بیمار ہوجاؤں گا تو یہ عمل نہ کروں گا، کیوںکہ سفر اور مرض عارضی امور ہیں۔ اصل حالت یہی ہے کہ انسان تندرست رہے اور اپنے گھر میں رہے، اس لیے نیت دوام کی باقی رہتی ہے۔ پھر جب اتفاقا عذر پیش آتاہے تو اس کو ثواب پورا ملتا ہے۔ دوسرے یہ کہ سفر اور مرض کاکوئی خاص وقت نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ آدمی برسوں بھی سفر نہ کرے ،نہ بیمار ہو۔اس لیے ایامِ سفر ومرض کو عمل سے مستثنیٰ کرنے کی طرف التفات نہیں ہوسکتا۔ پس وہ دن بھی اس کے ذہن میں عمل ہی کے لیے مقرر تھے مگر اتفاق سے ناغہ ہوگیا، بخلاف حیض ونفاس وغیرہ کے، کہ یہ اعذارِ مستمرہ ہیں۔ نیز اکثر ان کے اوقات بھی معیّن ہوتے ہیں۔ پس عورتیں جب نماز پڑھنا شروع کریں گی ان کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ حیض ونفاس کے وقت نماز کو چھوڑ دیں گے، تو ان کی نیت دوام کی نہیں ہوتی۔ یہ نیت کسی عورت کی نہیں ہوتی کہ میں ان دنوں میں بھی نمازپڑھوں گی۔ ایسے ہی موت کا آنا یقینی ہے گو وقت معلوم نہیں، مگر ہرشخص جس کام کو شروع کرتاہے اس کی نیت یہی ہوتی ہے کہ جب تک زندہ ہوں یہ کام کرتارہوں گا۔ یہ نیت کوئی نہیں کرتا کہ موت کے بعد بھی عمل کرتارہوں گا۔ اور اگر کوئی ایسی نیت کرے تو وہ معتبر نہیں، کیوںکہ وہ محض الفاظ ہی الفاظ ہیں، نیت اور عزم کا درجہ اس میں کبھی نہیں ہوسکتا ۔اور اس نیت کی ایسی مثال ہوگی جیسے امام ابویوسف ؒ نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایا تھا کہ مجلسِ اِملا میں سب لوگ سوال کرتے ہیں، تم کچھ سوال نہیں کرتے؟ اس نے کہا: اِن شاء اللہ تعالیٰ اب سے سوال کیا کروں گا۔چناںچہ ایک دن حضرت امام ؒ نے یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ روزہ غروب کے ساتھ فوراًافطار کرنا چاہیے، تو وہ طالب علم صاحب پوچھتے ہیں کہ حضرت! اگر کسی دن غروب ہی نہ ہو تو؟ امام ابویوسف نے فرمایا کہ بس آپ خاموش ہی رہیں، آپ کو بولنے کی ضرورت نہیں۔ جیسے کسی کے یہاں بہو آئی تھی ،وہ بولتی نہ تھی، ساس کو بہت رنج تھا کہ ہائے بہو گونگی آئی، بولتی ہی نہیں۔ جب ساس نے اس کو بہت سمجھایا بجھایا کہ لڑکیاں تو بولتی ہوئی اچھی لگا کرتی ہیں، تو بولتی کیوں نہیں؟ تو ایک دن آپ یہ بولیں کہ ساس سے کہنے لگیں کہ میں تم سے یوں پوچھوں ہوں کہ اگر تمہارا بیٹا مرگیا تو تم میرا دوسرا نکاح بھی کردوگی یا یوں ہی ساری عمر بٹھائے رکھو گی؟ ساس نے کہا کہ بس بی بی، تو چپ ہی رہاکر، مہینوں میں بولی تھی، تو یہ پھول جھڑے،