اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کھانے کو گوہ موت کہنا مگرنہ اس قدر گھٹانا کہ گوہ موت ہی کہہ دیا جائے۔ کیوںکہ کھانے میں یہ بھی تو ایک حیثیت ہے کہ وہ خدا کا رزق ہے، اسی لحاظ سے وہ بہت کچھ معظم ومکرم ہے۔ غرض یہ ان کا مسخرہ پن تھا کہ رزق کے لیے ایسے الفاظ بے ہودہ استعمال کیے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوںکی قدر اللہ والوںکے یہاں جیسی دیکھی، کہیں نہ دیکھی۔مولانا فضل رحمن صاحب نے ارہرکی دال کو بڑی نعمت کہا چناںچہ ایک بار حضرت مولانا شاہ فضل رحمن صاحب قُدِّس سِرُّہٗ کے یہاں میں مہمان تھا۔ جب میں نے کھانا شروع کیا مولانا نے پوچھا :کیاکھاناہے؟ میں نے کہا: ارہر کی دال اور روٹی ہے۔ فرمایا: سبحان اللہ! خدا کی بڑی نعمت ہے۔ دیکھو! صحابۂ کرام ؓ نے جہاد میں ایک ایک چھوہارے پر پورا دن گذارا ہے اور جناب رسول اللہ ﷺ تو بعض وقت بدون سالن کے روٹی کھاتے تھے، کبھی سرکہ سے کھالیتے۔ واقعی اللہ کے بندے ایسے ہی شاکر ہوتے ہیں۔ اب ہماری یہ حالت ہے کہ کوئی کھانا کھلاتا ہے تو اس میں دس قسم کے اعتراض نکالتے ہیں اور جگہ جگہ گاتے پھرتے ہیں کہ فلانے کے یہاں گھی کم تھا ،گوشت سخت تھا ،گلا گھونٹ پلاؤ تھا، گھونسے مار مار کر حلق سے اتارا گیا ۔یہ کیا بے ہودگی ہے؟ اپنے آپ کو ایسا بڑا سمجھتے ہیں کہ پلاؤ قورمہ بھی نظر میںنہیںآتا۔ اگر واقعی کھانا خراب ہی تھا اورتمھیں پسند نہ آیا تو اس کونہ کھاتے ،واپس چلے آتے، مگر اس کی نسبت تحقیر کے الفاظ کہنا ،جابجا گاتے پھرنا ،یہ کہاںکی تہذیب ہے؟ دیکھو! مولانا نے ارہر کی دال کوبڑی نعمت فرمایا اور فرمایاکہ صحابۂ کرام اور جناب رسول اللہ ﷺ کیاکھایا کرتے تھے؟ اور حضور ﷺ کے زمانہ میں تو جَو کو پیس کرپھونک سے بھوسی اڑاکر کھالیا جایا کرتا تھا۔ پھر کس کا منہ ہے کہ پلاؤ قورمہ سے بھی ناک چڑھائے۔