اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وقت منہ چڑھا ہوا ہے، ایسے آدمی سے کسی کو اُنس نہیںہوتا۔ آپ نے اس کانام وقار رکھا ہے ،مگر دراصل یہ کبر ہے۔ بھلا حضور ﷺ سے زیادہ کون باوقار ہوگا؟ مگر حضور ﷺ خندہ پیشانی تھے۔ صحابہ ؓ کے ساتھ بولتے تھے۔ لوگ جس قسم کی بات چیت کرتے حضورﷺ بھی اس میں شریک رہتے۔ ہمارا وقار حضور ﷺ کے وقار سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔میری عادت ہے کہ میں مدرسہ میں بیٹھ کر دوستوں کے سامنے اپنے گھر کے واقعات وحالات بھی کہہ ڈالتاہوں (یعنی مخالفوں کے سامنے نہیں)، اس سے بھی ان صاحب کو اختلاف تھا۔ وہ کہتے تھے کہ گھر کی باتیں مجمع میں بیان کرنا خلافِ متانت ہے۔ انھوںنے تو یہ بات خیر خواہی سے کہی ہوگی، لیکن میں اس کو غلط سمجھتا ہوں۔متانت خلافِ سنت مذموم ہے میںنے کہا :مولانا!متانت اس کو نہیں کہتے ۔متانت بھی وہی ہے جو سنت سے ثابت ہے۔ آ پ اس متانت کی بدولت بعض سنتوں سے محروم ہیں۔ اچھا !سچ سچ بتاؤ ،کبھی تم نے اس سنت پر بھی عمل کیا ہے جو حضور ﷺ سے ثابت ہے یعنی بی بی کے ساتھ دوڑنا، اور بحمداللہ! مجھے یہ دولت نصیب ہوئی ہے۔ ہم نے اس سنت پر عمل کیا ہے۔ تم اس متانت ہی میں رہوگے جس کی بدولت سنت معاشرت مع الازواج پر کبھی عمل نصیب نہ ہوگا، یہ متانت نہیں بلکہ تکبر ہے، یہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ہے۔ حضور ﷺ کی حالت یہ تھی کہ بکری کادودھ اپنے ہاتھ سے دوہ لیتے، ترکاری کاٹ لیتے اور گھر کے کاموں میں گھر والوں کی مدد فرماتے۔ الحمدللہ! اس پر بھی ہمیں عمل کی توفیق ہوئی ہے۔ حضرت! یاد رکھیے طریقِ سنت یہ ہے کہ مسلمان سیدھا سادہ رہے، بڑا بن کر نہ رہے۔ یہ کیا کہ جہاں بیٹھیں ایسے بیٹھیں جیسے مجمع کے سردار ہیں۔حضورﷺ سب میں مِل جل کر رہتے تھے ہمارے حضور ﷺ تو اس طرح مِل جل کر رہتے تھے کہ مجمع میں کوئی یہ بھی تمیز نہیں کرسکتا تھا کہ سردار کون ہے۔ گھر کے اندر یہ حالت تھی کہ بعض دفعہ بیبیاں روٹھ جاتیں اور حضورﷺ ٹال دیتے۔ایک مرتبہ حضور ﷺ بیبیوں سے روٹھ گئے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت صدیقِ اکبر ؓ حضور ﷺ کے گھر آئے تو دروازہ میں سے حضرت عائشہ ؓ کو حضور ﷺ کے ساتھ چلّا چلّاکر بات کرتے ہوئے سنا۔ غصہ آیا، جب اندر پہنچے تو صاحب زادی (عائشہ ؓ ) سے کہتے ہیں: میں بھی سن رہاہوں کہ تُو حضور ﷺ کے سامنے زور سے بول رہی ہے۔ یہ کہہ کر طمانچہ مارنے کو ہاتھ بڑھایا۔ فوراً ہی حضور ﷺ نے روک لیا۔ جب حضرت صدیق ؓ چلے گئے توحضور ﷺ حضرت عائشہ سے فرماتے ہیں: دیکھا !میںنے تم کو کیسے بچالیا، ورنہ پٹ گئی ہوتیں۔