اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عائشہؓ حضور ﷺ کی عاشق زار تھیں مگرپھر بھی کبھی اینٹھ جاتیں اور حضورﷺ کچھ نہ کہتے، کیوںکہ درحقیقت یہ ناراضی نہیں تھی بلکہ ناز تھا۔ یہ ایسا ہے جیسے کبھی رعایا بادشاہ سے خفاہوجاتی ہے اور وہ اُن کو سزا نہیں دیتا بلکہ اُن کے کہنے کے موافق کردیتاہے۔ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ انتقام سے عاجز ہے بلکہ نہایت درجہ شفیق ہے اور رعایا کی ناز برداری کرتاہے۔ یہ ہے طرزِ معاشرت سنت کے موافق، اب جولوگ متانت ووقار کو لیے پھرتے ہیں وہ اسی میں رہیں۔ ہم نے ایک والیٔ ملک کی زیارت کی ہے(ان کانام نہیں لیتاہوں) وہ اس قدر خلیق اور نرم تھے کہ ان کی بیوی کبھی کبھی ان کو پِیٹ بھی لیتی تھیں۔ خیر یہ تو واہیات ہے کہ میاں بیوی کے ہاتھ سے پِٹا کرے، مگر اس سے یہ تو معلوم ہوا کہ وہ کس قدر خلیق تھے،ورنہ ایک کے دو لگاتے۔ یہ بی بی صاحب کی بدتمیزی تھی کہ وہ میاںپر ہاتھ اٹھاتی تھی اور میاں کا ڈِھیلا پن تھا کہ بی بی کو اتنا گستاخ کردیاگیاتھا۔ صرف نواب صاحب کی وسعتِ اخلاق دکھلانے کے لیے یہ حکایت زبان پر آگئی۔باقی بیوی کے ہاتھوں پِٹنا پٹانا توبڑا واہیات ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ بیوی پر اپنا رعب اتنا نہ بڑھانا چاہیے کہ میاں بالکل ہوّا ہی ہوجاوے کہ ادھر میاں نے گھر میں قدم رکھا اور بی بی کادم فنا ہوا۔ ہوش وہواس بھی جاتے رہے۔ بے چاری کے مُنہ سے کوئی بات نکلی یا کوئی چیز مانگی اور ڈانٹ ڈپٹ شروع ہوگئی کہ تم بہت فضول خرچ ہو۔ اس چیز کی کیا ضرورت تھی، اس چیز کی کیاضرورت ہے؟بیوی کے خرچ میں تنگی بعض لوگ ضروری کھانے پینے میں بھی عورت پر تنگی کرتے ہیں اور اس کے لیے اصول مقرر کرتے ہیں۔مثلاً چار آنے روز سے زیادہ نہ دیں گے چاہے کوئی مہمان آوے یا کوئی بیمار ہوجاوے۔ بات بات پر کہتے ہیں کہ بس اس سے زیادہ نہ ملے گا۔بھلے مانس! عورت تو اہلِ وصول ہے اہلِ اصول نہیں ہے۔ تم بڑے اہلِ اصول ہو تو ذرا اپنی ذات کے لیے پابندی کرکے دکھلاؤ۔ اپنے واسطے توکوئی رقم دو آنہ، چار آنہ یا روپیہ مقرر کرو کہ اس سے زیادہ کسی حال میں خرچ نہ کروگے خواہ بیماری ہویاشادی ہویاکوئی آفت ناگہانی۔ مثلاً کوئی مقدمہ آپ کے سر پڑجاوے پھر دیکھیں کہ آپ اصول کی پابندی کہاں تک کرتے ہیں۔ سب اصول رکھے رہ جاویں گے۔ ذرا سی دیر میں سینکڑوں روپیہ پر پانی پھر جاوے گا۔ پھر غریب بیوی کے ساتھ ہی کیوں اصول بگھارتے ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ عورتوں کو فضول خرچی کی اجازت دے دی جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ خدا نے جتنی وسعت تم کو دی ہے جیسا تم اپنی ذات کے لیے خرچ کرتے ہو ویسا ہی اس کو بھی خرچ کرنے دو۔