اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اپنے سے کمترحیثیت والوں کو دیکھنے سے بڑی راحت دل کو ہوتی ہے۔ہماری حالت : مگر اب ایسا مذاق بدلا ہے کہ دنیا میں جہاں ذرا کمی ہوئی اس کا تو قلق ہوتاہے اور اس پر کبھی نظر نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی مخلوق ہم سے بھی ابترحالت میں ہے، ہم پھر ان سے بہت اچھے ہیں۔ اور دین میں ایسا استغنا برتا جاتاہے کہ پانچ وقت کی نماز ہی پر اکتفا کرلیا ہے۔ اگرکوئی ان سے تہجد واشراق کو کہہ دے تو جواب میں یوں کہتے ہیں کہ کیا ہم مرجائیں، بہت تو کام کرتے ہیں کہ پانچ وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ گویا انہوں نے نماز کیا پڑھی ساری جنت ہی خریدلی۔ جیسے ایک گنوار کالڑکا کسی مُلّاجی کے پاس پڑھتا تھا ،تو ایک دن وہ گنوار مُلّاجی سے کہنے لگا کہ میرے بیٹے کو بہت نہ پڑھادیجیو، کہیں لوٹ پوٹ پگمبر نہ ہوجاوے (یعنی پیغمبر نہ ہوجاوے)۔ تو جس طرح اس جاہل کاخیال تھا کہ زیادہ پڑھنے سے آدمی پیغمبر ہوجاتاہے، اسی طرح آج کل لوگوں کاخیال ہے کہ بس پانچ وقت کی نماز پڑھ لینے سے آدمی جنید وشبلی ہوجاتاہے پھر اسے اور کسی کام کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسی طرح ایک گنوار کے سر میں درد تھا۔ ایک دوسرے گنوارنے کہا کہ آ!میں تیراسر جھاڑ دوں، مجھے سر کے دَرد کی جھاڑ آتی ہے۔ وہ سر کھول کے اُس کے آگے بیٹھ گیا تو آپ نے کُلْ بِاللّٰہِ ہَدْ پڑھ کر اس کے سر کو جھاڑا (یہ{قُلْ ہُوَاللّٰہُ اَحَدٌ} کوبگاڑا تھا) تو وہ دوسرا گنوار کہتاہے جس کے سر میں درد تھا کہ جا! ساڑے کے ساڑے تُو تو ہاپج ہی ہوگیا۔ (ساڑے کے ساڑے یہ خرابی ہے سالے کی جو گالی کالفظ ہے، اور ہاپج خرابی ہے حافظ کی) سو دیکھیے! اس کے نزدیک کُلْ بِاللّٰہِ ہَدْ ہی سے آدمی حافظ ہوجاتاہے جس میں پوری {قُلْ ہُوَ اﷲ} بھی یادہونا شرط نہیں اور اس کا صحیح پڑھنا بھی شرط نہیں۔یہی حال آج کل عام لوگوں کاہورہاہے کہ ان کے نزدیک جنید وشبلی بننے کے لیے پانچ وقت کی نماز سے زیادہ اورکچھ ضرورت نہیں اور ان نمازوں کا اچھی طرح ادا کرنا بھی ضروری نہیں، بس الٹی پلٹی نماز پانچ وقت پڑھ لینا کافی ہے۔ جیسا ایک جولاہے کا قصہ ہے کہ اس کا لڑکا انگریزی پڑھتا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ تمہارا لڑکا انگریزی پڑھتاہے اب کتنی لیاقت ہوگئی؟ کہنے لگا کہ کھڑا کھڑا تو مُوتنے لگاہے اب ذرا سی کسر رہ گئی ہے۔اس کے نزدیک بس کھڑے ہوکر موتنے لگنا بڑی لیاقت تھی کہ اس کے بعد کامل لیاقت میں ذرا ہی سی کسر رہ جاتی ہے۔ شاید وہ کسر یہ ہوکہ کھڑا کھڑا ہگنے ہی لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ اوچھا آدمی ذرا سی بات میں اِترانے لگتا ہے۔ جوبات کسی درجہ میں بھی قابلِ فخر نہیں ہوتی وہ اسی پر ناز کرنے لگتاہے اور یہ ساری خرابی جہل کی ہے۔ ان لوگوںکو اصلی کمالات کی خبر ہی نہیں، اسی لیے ان کی نظر میں چھوٹی