اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عورت کی تہذیب یہ ہے کہ اجنبی سے روکھابرتاؤ کرے حالاںکہ عورت کے لیے تہذیب یہی ہے کہ غیر آدمی سے رُوکھا برتاؤ کرے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوںنے قرآن کو چھوڑدیا۔حق تعالیٰ تو یوںفرماتے ہیں: {فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo}(الأحزاب:۳۲)۔ یعنی کسی سے نرم لہجہ سے بات نہ کرو۔ دیکھیے! اس آیت کی مخاطب وہ عورتیں ہیں جو مسلمانوں کی مائیں تھیں یعنی ازواجِ مطہرات ، ان کی طرف کسی کی بُری نیت جاہی نہیں سکتی تھی، مگر ان کے لیے بھی یہ سخت انتظام کیاگیا ،تو دوسری عورتیں تو کس شمار میں ہیں؟ چناںچہ اس کے شروع میں ہی یہ لفظ {لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ }(الأحزاب:۳۲)موجود ہے، یعنی تم اور عورتوں جیسی نہیں ہو، بلکہ اوروں سے افضل ہو۔ پھر بھی فرماتے ہیں کہ مردوں کے ساتھ نرم لہجے سے بات مت کرو۔ جب بات کرنا ہوتو خشک لہجہ سے کرو،جس سے مخاطب یہ سمجھے کہ بڑی کھری اور ٹری اور تلخ مزاج ہیں، تاکہ لاحول ہی پڑھ کر چلا جائے ۔نہ یہ کہ نرمی سے گفتگو کرو کہ میں آپ کی محبت کا شکریہ ادا کرتی ہوں، مجھے جناب کے الطاف کریمانہ کاخاص احساس ہے، جیسا کہ آج کل کے رسالوں میں عورتوں کے مضامین نکلتے ہیں۔ یہ مضامین زہرِ قاتل ہیں،آفت ہیں، طرح طرح کے مفاسد اس پر مرتب ہوتے ہیں۔ بعض لوگ اس پر یہ کہہ دیتے ہیں کہ صاحب! بتلائیے !کیا فساد ہورہاہے ،ہم کو تو نظر نہیں آتا۔ میں کہتا ہوں کہ اول تو فساد موجود ہے اور اگر تم کو نظر نہیں آتا تو ممکن ہے کہ بہت قریب آگے چل کر یہ لہجہ کچھ رنگ لاوے گا۔ اُس وقت سب کو معلوم ہوگا اور اِ س وقت مجھ کو معلوم ہورہاہے۔ جیسا کہاگیا ہے : من ازاں حسن سوز افزوں کہ یوسف داشت دانستم کہ عشق از پردئہ عصمت بروں آرد زلیخا را اہلِ نظر شروع ہی میں کھٹک جاتے ہیں کہ یہ چیز کسی وقت میں رنگ لائے گی۔ اور اس کی دلیل بھی خود اس آیت میں ہی موجود ہے کہ{فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ}کے بعد ہی بطور نتیجہ کے فرماتے ہیںـ:{ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ} (الأحزاب: ۳۲) کہ اگر خضوع فی القول یعنی نرم لہجہ سے بات کی گئی تو جس کے دل میں روگ ہے اس کے دل میں لالچ پیدا ہوگا اور وہ لہجہ کی نرمی سے سمجھ لے گا کہ یہاں قابو چل سکتاہے، پھر وہ اس کی تدبیریں اختیار کرے گا۔ دیکھیے !خود حق تعالیٰ لہجہ کی نرمی کا یہ اثر بتارہے ہیں، پھر کسی کی کیا مجال ہے کہ اس اثر کا انکار کرے۔ میں اپنی طرف سے تو