اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تو ہر وقت دعا ہی مانگتے رہتے ہو۔ میں نے جو تم کو ہاتھ پاؤں دے دئیے ہیں ان کوہلاؤ۔ ان ہی سے اپنا کام نکالو ،مجھے کیوں ستائے جاتے ہو؟ نعوذباللہ، نعوذباللہ۔ گویا یہ بی بی اللہ میاں کے یہاں پیش کار ہیں کہ اللہ میاں نے ان سے ہی یہ خاص خاص باتیں کہہ دی ہیں، پھر ان کے ذریعے سے دوسروں کو پہنچائی جاتی ہیں۔ کیا کوئی مسلمان ایسی کتاب میں موافقت رائے کرسکتا ہے؟ اور آج کل یہ بھی پیسے کمانے کی ایک آسان ترکیب ہے کہ عُلَمَا کے پاس ایسی کتابیں بھیجی جاتی ہیں اور ظاہر میں یہ کہاجاتاہے کہ اگر ان میں کوئی نقص ہو تو اس کی اصلاح کردی جائے۔ اصلاح تو جیسی مقصود ہوتی ہے معلوم ہے ۔اصلی غرض یہ ہے کہ ان پر تقریظ لکھ دی جائے، تاکہ زیادہ اشاعت ہوسکے۔ چناںچہ بعض بااخلاق علماء تقریظ بھی لکھ دیتے ہیں، مگر میں کہتاہوں کہ یہ سخت غلطی ہے، کیوںکہ اس سے ان کو اس بے ہودہ تعلیم کی اورتائید مل جاتی ہے۔ مجھ سے کوئی پوچھے تو ان کتابوںکی اصلاح یہ ہے کہ سب کو جمع کرکے ایک دم جلادیا جائے ،کیوںکہ ہر چیز میں اعتبار غالب کاہوا کرتاہے اور ایسی کتابوں میں غالب شر ہی ہے اور شر کا علاج یہی ہے کہ سب کو جلادو۔اخباروں میں عورتوں کے مضامین مع پتا ونشان ایک اور آفت یہ ہے کہ تعلیم یافتہ عورتیں اخباروں میں مضامین دیتی ہیں اور ان میں اپنا نام اور میاں کانام اور پورا پتہ ،حتی کہ محلہ کانام اور گلی اور مکان نمبر بھی ہوتاہے۔ یہ شایداس واسطے کہ لوگوں کو ان سے خط وکتابت میں، میل ملاقات میں دقت نہ ہو۔نہ معلوم ان کی غیرت کہاں گئی؟ ان بیبیوں نے تو حیا کو بالکل ہی بالائے طاق رکھ دیا۔ اور خدا جانے ان کے مردوں کی غیرت کہاں گئی؟انھوں نے اس کو کیوں کرگوار کیا۔ یوں کہیے کہ بس طبیعتیں ہی مسخ ہوگئی ہیں۔ایک پرچہ میں عورت کا پیر سے عاشقانہ خطاب میرے پاس ایک ماہواری پرچہ آیا تھا، جس میں ایک بی بی کی اپنے پیر کی شان میں غزل تھی۔ جس میںپیر کو اس طرح خطاب تھا جس طرح عاشق ومعشوق میں ہوا کرتاہے۔ تمنائے وصال کا اظہار، خد وخال کی تعریف ، اس کو پڑھ پڑھ کر غیرت آتی تھی۔ میں نے لکھ دیا کہ آج سے یہ رسالہ میرے پاس ہرگز نہ آوے۔ مجھے اس قدر جوشِ غیرت ہوتاہے کہ پھاڑ کر پھینک دوں۔ تعجب کی بات ہے کہ پڑھنے والے کو غیرت آوے اور جس کے گھر کا قصہ ہے اس کو غیرت نہ آوے۔