اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چیتھڑے ، لیتھڑے، ٹھیکرے : واعظوں کا بیان بڑے لچھے دار ہوتاہے۔ دہلی میں مولانا عبدالرب صاحب ایک واعظ تھے ،وہ عورتوںکی اس صفت کو بڑے لچھے دار فقروں میں بیان کیا کرتے تھے کہ ان عورتوں کی یہ عادت ہے کہ ان کے پاس چاہے کتنے ہی کپڑے ہوں، مگر جب پوچھیے کہ تمہارے پاس کتنے کپڑے ہیں؟ تو یوں ہی کہیں گی کہ میرے پاس کیا ہیں؟ دو چیتھڑے۔ اور جوتوں کے چاہے کتنے ہی جوڑے ہوں، مگر جب پوچھو یوں ہی کہیں گی: کیا ہیں ؟دو لیتھڑے۔ اور برتن چاہے کتنے ہی ضرورت سے زیادہ ہوں، مگر جب پوچھو یوں ہی کہیں گی کہ کیا ہیں؟ دو ٹھیکرے۔ خیر یہ تو مولوی صاحب کا لطیفہ ہے ،مگرحقیقت میں عورتوںکی عادت کا فوٹو انہوں نے خوب کھینچا۔ غرض ان کو دنیا کی تکمیل کی بہت زیادہ فکر ہے۔ ہر وقت اسی دُھن میں رہتی ہیں، ان کی ہوس کبھی پوری نہیںہوتی۔ زیور کی ہوس کایہ حال ہے کہ بعض عورتیں سر سے پیر تک لدی پھدی رہتی ہیں، مگر پھر بھی بس نہیں۔ اگرنیا زیور نہ بنوائیں گی تو پہلے ہی زیور کی توڑ پھوڑ میں روپیہ برباد کرتی رہیں گی۔ آج ایک زیور بڑے شوق سے بنوایا تھا، کل کو کسی عورت کے پاس وہی زیور دوسرے نمونہ کا دیکھ لیاتو اب ان کو توڑ پھوڑ کی بیکلی لگتی ہے کہ میں بھی اسی نمونہ کابنواؤں گی۔ مگرآج کل کچھ دنوں سے نو عمرلڑکیوں میں زیور کا شوق کم ہوگیا ہے۔ یہ نیا فیشن چلا ہے کہ نو عمرلڑکیاںآج کل کان وغیرہ ننگے رکھتی ہیں۔ یہاں بھی یہ اثر ضرور ہوگا۔ یہا ں کی مجھ کو زیادہ تحقیق نہیں،مگر جب قصبات میں یہ اثر پہنچ گیا ہے تو شہروں میں بھی ضرور ہوگا۔ چاندی کا زیور تو آج کل عیب شمار ہونے لگا۔ یہ تو نینوں جلاہیوں کا زیور رہ گیا۔ شُرَفا کی لڑکیاںصرف سونے کا زیور پہنتی ہیں، وہ بھی صرف کانوں میں دوہلکے ہلکے بُندے ہیں اور سارا بدن زیور سے ننگا ہے۔ ہاں پیروں میں کچھ چاندی بھی ڈال لیتی ہیں، کیوںکہ وہ حقیر چیز ہے پیروں ہی میں رہنی چاہیے۔ تو آج کل زیورمیں لڑکیوں نے اختصار کرلیا ہے ۔اور اس مذاق کی ابتدا میموں کے اتباع سے ہوئی ہے۔ میمیں زیور نہیں پہنتیں ،کیوںکہ ان کی قوم میں اس کا رواج نہیں۔ حکمران قوم ہے ،ان کو دیکھ دیکھ کر ہندوستانی عورتوں میں بھی یہ مذاق پیدا ہوگیا ۔اور ان کو میموںکاطرز اس طرح معلوم ہوا کہ آج کل جا بجا شفاخانے کھلے ہوئے ہیںجن میں زنانے شفاخانے بھی ہیں۔ ہندوستانی عورتیں وہاں جاکر میموں سے علاج کراتی ہیں، اس ذریعے سے ان کے پاس آمدورفت ہوتی ہے اور جو زیادہ وسعت والے ہیں وہ میموںکو اپنے گھروں پربلاتے ہیں۔ دوسرے آج کل ریلوںمیں بھی عورتیں سفر کرتی ہیں، اسٹیشنوں پر میموں پر نظریں پڑجاتی ہیں، علمِ اجمالی تو اس طرح حاصل ہوا۔ پھر تفصیلی علم شفاخانوںمیں جاکر یا ان کو گھر پر بلانے سے ہوگیا۔ پھر بعض عورتوں پر تو میموں کا اثر بلا واسطہ ہوا اور بعض پر بواسطہ ہوا کہ ایک نے تو میموںکو دیکھ کر ان کا طرز اختیار کیا۔ پھر اس کو دیکھ دیکھ کر دوسریوں نے اپنا رنگ