اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے آثار نمایاں ہوئے اور مکان میں سناٹا ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی ختم ہوچکی تو پہلی بات جو رسول اللہ ﷺ کے منہ سے نکلی وہ یہ تھی: أَبْشِرِي، یَا عَائِشَۃُ! فَقَدْ بَرَّأَ کِ اللّٰہَ۔ اے عائشہ! خوش خبری سن لو کہ حق تعالیٰ نے تمہاری براء ت ظاہر کردی۔ پھر آپ ﷺ نے وہ آیات پڑھ کر سنائیں جو اُس وقت نازل ہوئیں تھیں۔ اس بات کے سنتے ہی سب کو ایسی خوشی ہوئی کہ سارے گھر میں ہر شخص کا چہرہ خوشی سے کِھل گیا اور حضرت عائشہ ؓ کی والدہ نے فرمایا: قُوْمِيْ یَا عَائْشِۃُ! إِلَیْہِ وَقَبِّلِيْ (أي إلی وجہ رسول اﷲ ﷺ ) اے عائشہ! اُٹھو، یعنی حضور ﷺ کو سلام کرو۔ توحضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: واﷲ، لا أقوم إلیہ، وإني لا أحمد إلا اﷲ عز وجل۔ بخدا! میں آپ کے پاس اٹھ کر نہ جاؤں گی،اور میں اپنے خدا کے سوا کسی کی حمد نہیںکرتی (کیوں کہ آپ نے تو مجھے آلودہ سمجھ ہی لیاتھا ،خدا تعالیٰ نے مجھے بری کیا)۔حضرت عائشہ ؓ کے کلام کامنشا : اب مردوں کو سمجھنا چاہیے کہ حضرت عائشہ ؓ کی یہ بات کس بنا پر تھی؟ اس کا منشا وہی ناز تھا جو بی بی کو تعلقِ دوستی کی وجہ سے شوہر پر ہوتاہے۔ اور شریعت نے عورتوں کی اس قسم کی باتوں پر جو وہ ناز میں کہہ ڈالیں کوئی مواخذہ نہیں فرمایا، اور اگر عورت کو ناز کا حق نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کو ضرور تنبیہ فرماتے، کیوں کہ ظاہر میں یہ کلمہ نہایت سخت تھا۔حضورِ پرنور ﷺ احکامِ شرعیہ میںکسی کی رعایت نہ فرماتے تھے : اوریہ احتمال تو ہو ہی نہیں سکتا کہ حضور ﷺ احکامِ شرعیہ میں کسی کی رعایت فرمائیں۔ چناںچہ ایک عورت نے چوری کی تھی جن کا نام فاطمہ تھا۔ حضور ﷺ نے حکمِ شرعی کے موافق ہاتھ کاٹنے کاحکم دیا۔ لوگوں نے سفارش کرنی چاہی