اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تو یہ کس قدر لطافتِ مزاج تھی کہ محض کپڑے کے بدن پر پڑنے سے بدوں دیکھے نگندوں کا ٹیڑھا ہونا معلوم ہوگیا۔ پھر اس سے اتنی الجھن ہوئی کہ رات بھر نیند نہ آئی۔اتنے تو آپ نازک مزاج تھے۔ مگر صَبور ایسے کہ بیوی نہایت بدمزاج ملی تھی،جو آپ کو نہایت کوری کوری سناتی تھی اور آپ اس کی سب باتیں سہتے تھے، کبھی طلاق کاخیال نہ کیا۔ نہ اپنی طرف سے کچھ ایذا دی بلکہ اس قدر خاطر داری کرتے تھے کہ صبح کو روزانہ خادم کو بھیجا کرتے کہ بیگم صاحبہ کا مزاج پوچھ کر آئے۔خادم جاتا اور مرزا صاحب کی طرف سے مزاج پُرسی کرتا اور وہ حضرت کو برملا بُرا بھلا کہتی تھیں۔ خادم یہاں آکر کچھ عرض نہ کرتا بس اتنا کہہ دیتا کہ حضرت وہ اچھی طرح ہیں۔ ایک مرتبہ کوئی آغا سرحدی خادم تھے۔ ان کو بھی حسبِ معمول بی بی صاحبہ کی مزاج پرسی کے لیے بھیجا گیا۔اس نے آغا کے سامنے بھی مرزا صاحب کوخوب برا بھلا کہا۔ یہ سرحدی پٹھان تھے، ان کوغصہ آگیا اور حضرت سے آکر عرض کیا کہ وہ تو آپ کو برابھلا کہتی ہیں۔ پھر آپ ہی اتنی خاطر کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا: بھائی! ان کی باتوں کا برا نہ مانو، تمہاری تو وہ بزرگ ہیں ۔اور میں اس لیے اُن کی خاطر کرتاہوں کہ میری وہ بڑی محسن ہیں۔ مجھ میں یہ سب کمالات اسی کی بدولت ہیں۔ اللہ اکبر! اتنے نازک مزاج کو بیوی کی بدتمیزیوںسے کتنی ایذا ہوتی ہوگی مگر کمال یہ ہے کہ پھر بھی صبر کرتے ہیں : شنیدم کہ مردانِ راہِ خدا دلِ دشمنانِ ہم نہ کردند تنگ ترا کے میسر شود ایں مقام کہ بادوستانت خلاف ست وجنگ اہل اللہ نے تو دشمنوں کا دل بھی تنگ نہیں کیا۔ افسوس! ہم سے دوستوں کی ایذابھی برداشت نہیں کی جاتی، جن میں بیوی سب سے زیادہ دوست ہے۔ اس کی ایذا کا بھی ہم سے تحمل نہیں ہوتا۔ اگرثواب حاصل کرنے کو تحمل نہیں کرتے یہی سمجھ کر تحمل کرلو کہ مجھ سے کوئی گناہ ہوا ہوگا ،اس کا اس سے کفارہ ہورہاہے۔ایک حکایت : جیسا لکھنؤ میں ایک مردوعورت کی میں نے حکایت سنی کہ مرد تو بہت ہی بزرگ تھے اور بیوی بہت ہی بدمزاج تھی۔ ایک دن اُنہوں نے بیوی سے کہا کہ تُو بڑی کم بخت ہے کہ تجھے میرے پاس رہتے ہوئے اتنا زمانہ گزرگیا اور اب تک تیری اصلاح نہیں ہوئی۔ تو بیوی نے کہا: میں کم بخت کیوں ہوتی،مجھ سے زیادہ تو کوئی بھی سعادت مندنہ ہوگی کہ مجھے تم جیسا مرد