اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوجاتاہے نسبت مقصودہ سمجھ رکھا ہے۔ خوب سمجھ لو کہ نسبت اس کانام نہیں ہے۔ نسبتِ مقصودہ کے لیے گناہ اور معصیت سخت مضر بلکہ سمِ قاتل ہے۔نسبت کی حقیقت واحکام کی تفصیل زیادہ ہے ( جس کو میں کسی قدر پرسوں کے وعظ میں بیان کرچکاہوں) مگر اجمالاً ایک حکایت سے اس کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی۔ وہ حکایت یہ ہے کہ ایک طالب علم سے ان کے کسی مہمان نے پوچھا تھا کہ میاں! آج کل کیا شغل ہے؟ کہنے لگے کہ شہزادی سے نکاح کی فکر میں ہوں۔ اس نے پوچھاکہ پھر کچھ سامان کرلیا ہے؟ کہنے لگے کہ آدھا سامان تو ہوگیا ،آدھا باقی ہے۔ اس نے کہا :یہ کیوںکر ؟ کہا: میں تو راضی ہوں،مگر وہ راضی نہیں اور نکاح طرفین کی رضا سے ہوتاہے۔ لہٰذا ایک کا راضی ہونا آدھا نکاح ہے۔ تو جولوگ ملکۂ یاد داشت حاصل کرکے معاصی سے اجتناب نہیں کرتے اور اپنے کو صاحبِ نسبت سمجھتے ہیں اُن کی نسبت ایسی ہی ہے جیسے اس طالب علم کا آدھا نکاح، کہ یہ لوگ تو خدا سے یادداشت کا تعلق رکھتے ہیں، مگرخدا کو ان سے کوئی علاقہ نہیں۔یاد رکھو! نسبت اس تعلق کو کہتے ہیں جو طرفین سے ہو، یعنی بندہ کوخدا سے تعلق ہواورخدا کو بندہ سے تعلق ہو اور نصوص سے یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ عاصی سے خدا کو رضا کا تعلق نہیں ہوتا۔ لہٰذا معصیت کے ساتھ نسبتِ مطلوبہ کبھی جمع نہیں ہوسکتی۔مگر افسوس ہے کہ لوگ اس غلطی میں بہت مبتلا ہیں کہ وہ ملکہ یاد داشت ہی کو نسبت سمجھتے ہیں۔ خیر یہ توجملہ معترضہ تھا۔ میں یہ بیان کررہا تھا کہ عورتوں میں یہ مرض زیادہ ہے کہ جہاں ذرا نماز پڑھنے لگیں اپنے آپ کو رابعہ سمجھنے لگیں۔ اوچھے آدمی بہت جلدی اپنے معتقد ہوجاتے ہیں ۔ مثل مشہور ہے: الحائک إذا صلی یومین انتظر الوحي۔ جلاہا دو دن نماز پڑھ کر تیسرے دن وحی کا منتظرہوجاتاہے۔اپنے نیک کاموں پر ناز نہیں کرنا چاہیے : بہت لوگ اپنے کمالات کے معتقد ہیں، مگر ان کو یہ خبر نہیں کہ ہم دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کو امام غزالی ؒ کی احیاء میں کتاب الغرور دیکھنی چاہیے۔(غرور بمعنی تکبر نہیں یہ اردو کا محاورہ ہے۔ عربی میںغرور کے معنی دھوکہ کے ہیں۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَغَرَّکُمْ بِاللّٰہِ الغُرُوْرُ} (الحدید:۱۴) ان کو اللہ نے دھوکہ میں ڈال دیا۔ یہاں دھوکہ ڈالنا ہی مراد ہے) یہ وہ کتاب ہے جس نے امام غزالی ؒ پر کفر کے فتوے لگوائے۔ کیوں کہ اس میں انہوں نے