اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیے ایک خاص سورت اتری ہے جس کا نام ہی سورۂ فاتحہ ہے۔ بے وقوف، بھلا اس سے کوئی پوچھے کہ یہ دلیل کیسی ہوئی، کیوںکہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ تم نے اس بدعت کو ایجاد کرکے اس کانام سورئہ فاتحہ کے نام پر رکھ دیاہو اور واقعہ بھی یہی ہے۔ کیوںکہ نزولِ قرآن کے وقت اس رسم کا کہیں پتا بھی نہ تھا ،نہ اس طرح ثواب بخشنے کو کوئی فاتحہ کہتا تھا ،تو بعض گنوارایسے کوڑ مغز بھی ہوتے ہیں۔ غرض وہ بڑے میاں ان طالب علم کو پکڑ کر مولانا قدس سرہ کے پاس لائے اور کہاکہ حضرت! اس کی کیا وجہ کہ آپ ان کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں اور ہمارے سوالات کے جوابات نہیں دیتے ،حالانکہ ہم اتنے بڑے آدمی ہیں؟ مولانا ؒ کے جوابات بہت مختصر اور چبھتے ہوئے ہوا کرتے تھے۔ فرمایا کہ وجہ تو تم نے خودبیان کردی۔ بس یہی تو وجہ ہے کہ تم اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہو۔ ہائے !یہ تکبر1 بڑا سدِّ راہ ہے ،یہ کم بخت انسان کو تمام فیوض وبرکات سے محروم کردیتا ہے۔ یہی تو وہ بلا ہے جس سے شیطان مردود ہوا۔ہمارے اندر تکبر کی عادت : صاحبو! ہمارے اندر یہ تکبر گھسا ہوا ہے، اسی واسطے ہم کمالِ دین سے محروم ہیں۔ اسی کا ایک اثریہ ہے کہ ہم نے جہاں تھوڑا سا کام کرلیا، پانچ وقت کی نماز پڑھ لی اور اپنے آپ کو کچھ سے کچھ سمجھنے لگے۔ عورتوں میں بھی یہ مرض بہت ہے۔ اوّل تو ان میں دین دار بہت ہی کم ہیں اور جو دو چار دین دار ہیں بھی، وہ اپنے آپ کو نہ معلوم کیا سمجھتی ہیں ۔جس کامنشایہ ہے کہ عورتیں کم حوصلہ ہوتی ہیں اور ذرا سی بات میں تکبر اور بڑائی کرنا کم حوصلہ آدمی کاکام ہے۔ ایک عورت بڑی نمازن تھی۔ اتفاق سے اس کی شادی کسی ڈاڑھی منڈے بے نمازی سے ہوگئی تو وہ کیا کہتی ہے کہ اللہ رے تیری شان! ایسی پارسا ایسے بے دین سے بیا ہی گئی۔ گویا نعوذباللّٰہ اسے خداپر بھی اعتراض تھا کہ خدا تعالیٰ کے یہاں کچھ ضابطہ نہیں ہے ،جوڑ بے جوڑ کچھ نہیں دیکھتے ۔أستغفراللّٰہ! ارے !تم کو کیا خبر ہے کہ خاتمہ کس کا اچھا ہو اور خدا تعالیٰ کس کو بخشے؟ کس کوجہنم میں بھیج دے۔کیا تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ اس بے نمازی کو کسی ادا پر بخش دے اور تم کو اس تکبر کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دے۔ اول تو خاتمہ کا حال کسی کو معلوم نہیں، دوسرے جن اعمال پر تم کو ناز ہے کیا خبر وہ قبول بھی ہوتے ہیں یا نہیں؟ گو امید تو یہی رکھنی چاہیے کہ قبول ہوتے ہیں، مگر کوئی وحی بھی نہیں آگئی، اس لیے ڈرتے بھی رہنا چاہیے اور کبھی اپنے اعمال پر ناز نہ کرنا چاہیے، نہ دوسروں کو حقیر سمجھنا چاہیے، اس سے اندیشہ ہے حبطِ نورِ اعمال کا۔ اسی طرح بعض لوگوں کی یہ حالت ہے کہ جہاں ذرا ان کے قلب میں حرارت پیدا ہوئی اور وہ سمجھنے لگے کہ میں صاحبِ نسبت