اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صدری کرتے کے نیچے نہیں پہن سکتے تھے؟ گھڑی تو وہاں بھی رکھی جاسکتی تھی، کیا شان دکھانے ہی کی شکل گھڑی رکھنے کی موقوف علیہ ہے۔ چناںچہ ان کو وہ صدری نیچے پہنائی گئی۔ غرض ان دین داروں کی بھی بے ڈھب گت بنتی ہے۔ اگر اتنا بھی نہیں ہوسکتا (یعنی شیخ کا اتنا بھی )اتباع نہیں ہوسکتا کہ جو بات نفس کے خلاف بتلائے اس پر آمادہ ہو جاویں تو پھر کچھ بھی نہیں۔دین کے لیے تھوڑی بہت تکلیف برداشت کرنی ہی پڑتی ہے : مولانا نے ایک قصہ لکھا ہے کہ کوئی شخص کسی گودنے والے کے پاس اپنی کمر پر شیر کی تصویر بنوانے گیا تاکہ کمر میں قوت رہے۔ چناںچہ وہ بدن ننگاکرکے تصویر بنوانے بیٹھا۔ گودنے والے نے تصویر بنانا شروع کی۔ دم سے ابتدا کی۔کچ سے سوئی چبھوئی تو آپ کہتے ہیں: آہ! پھر پوچھتے ہیں کہ کیا بنارہے ہو؟ ا س نے کہا کہ دُم بنارہاہوں۔ آپ نے کہا کہ یہ شیر مکھیاں تھوڑاہی جھلے گا، ضرورت ہی کیا ہے دُم کی؟ اس نے دم چھوڑ کر پیٹ بنانا شروع کیا۔ دوسری جگہ کچ سے سوئی چبھوئی۔ پھر کہا: آہ! اور پوچھا :اب کیا بناتے ہو؟ اس نے کہاکہ پیٹ بناتا ہوں۔ آپ بولے کہ یہ کوئی کھائے گا تھوڑا ہی، پیٹ بھی جانے دو۔ اس نے تیسری جگہ سوئی چبھوئی۔ پوچھا :اب کیا بناتے ہو؟ اس نے کہا کہ سر بناتا ہوں۔ آپ بولے کہ یہ دیکھے یا سنے گا تھوڑا ہی ،اس کو بھی رہنے دو۔ اس پر گودنے والے نے جھلا کر سوئی پھینک دی اور کہنے لگا : شیر بے گوش وسر وشکم کہ دید ایں چنیں شیرے خدا خود نافرید بے کان اور سر اور پیٹ کا شیرکس نے دیکھا ہے ؟ایسا شیر تو خدانے بھی پیدا نہیں کیا۔ کہ ایسا شیر تو خدا نے بھی پیدا نہیں کیا کہ جس کے نہ کان ہوں، نہ سر، نہ پیٹ۔ پھر میں کیا بناؤں؟ تمہارا سر؟ تو جیسے اس تصویر بنوانے والے نے چاہا تھا کہ تکلیف تو ہو نہیں اورشیر کی تصویر بن جائے ،ایسے ہی ہم لوگوں کی حالت ہے کہ کچھتکلیف تو ہو نہیں اور کام ہو جاوے۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں: چوں نداری طاقت سوزن زدن پس تو از شیر ژیاں ہاں دم مزن جب تم کو سوئی چبھنے کی برداشت نہیں ہے تو پھر ایسے شیر کا نام مت لینا، یعنی اگر مشقت وریاضت کا تحمل نہیں ہے تو طلب حق کا دعویٰ نہ کرنا۔