اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بلکہ کھانے پر تو ایسا عمل کہ بھوک بھی نہ ہو تو کہتے ہیں :رات کیسے گزرے گی؟ کچھ نہ سہی تو کباب ہی لے آؤ۔ کھانا تو بے بھوک بھی کھاتے ہیں مکرر،سہ کرر چوکر ر، دونوں وقت کھانا کھایا جاتا ہے، لیکن اگر اس پر عمل نہیں تو دین کے بارے میں۔ خوب اچھی طرح جان لیجیے کہ جو نصاب تجویز کیا جائے گا اس کوروزمرہ کا وظیفہ سمجھئے اور کچھ نہیں چار ہی ورق سہی دو ہی سہی۔ جیسے قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتے ہیں اسی طرح دو ورق ا س کے بھی پڑھ لیے یا سن لیے۔ اگر تمام عمر بھی اس میں لگا رہنا پڑے تب بھی ہمت کرنا چاہیے۔ وجہ یہ کہ دنیا کی ضرورت محدود ہے اور دین کی غیر محدود۔ چناںچہ دین کی ضرورت مرنے کے بعد تک بھی رہے گی۔پس تعجب ہے کہ محدود ضرورت میں اتنا وقت صرف کریں اور غیر محدود میں کچھ بھی نہیں، بڑا تعجب ہے۔جب دنیا کی دھن ہے تو دین کی کیوں نہ ہو۔ صاحبو! یہ (دین) فراغت کی چیز نہیں۔مولانا فرماتے ہیں : اندریں رہ می تراش ومی خراش تا دم آخر دمے فارغ مباش تم کو چاہیے کہ اس طریق وصول الی اللہ میں ہمیشہ خراش تراش کرتے رہو اور آخری وقت تک ایک لحظہ بھی فارغ مت رہو۔ اور گو ہے توعمر بھر کا دھندا، مگر دشوار نہیں۔ آسانی سے عمربھر اس میں مشغول رہ سکتا ہے۔دین کی مشقت اور اس کا مزہ : اگر کوئی یہ کہے کہ آپ تو کہتے ہیں کہ دشوار نہیں، مگر ہم نے تو دو چار دن کرکے دیکھا بڑی مشقت ہوئی۔ عقلی جواب تو اس کا یہ ہے کہ اس مشقت کو تو بڑا سمجھتے ہیں، مگر اس میں کوتاہی کرنے سے جو مشقت پیش آئے گی وہ اس سے بھی بڑی ہے، یعنی آخرت کی خرابی جس کا مآل عذابِ جہنم ہے۔ توا سکے اعتبار سے پھر یہ آسان ہی ہوا۔ عقلی جواب تو یہ ہے اور یہی کافی ہونا چاہیے۔ مگر میں وجدانی جواب بھی دیتاہوں۔ وہ یہ کہ آپ کو کیسے خبر ہوئی کہ یہ مشقت تمام عمر رہے گی؟ کسی تمباکو کھانے والے سے پوچھ کر دیکھو کہ تمباکو جب پہلے پہلے کھایا تھا؟ کسی طبیب نے بتلایا تھا کہ تمباکو کوکھایا کرو، تو اس کو کھا کر کیسی پریشانی ہوتی تھی کہ ذرا ساکھا کر جی بھی میلا ہوتا تھا، سر بھی چکر کھاتا تھا۔ مگر اب یہ حال ہے کہ حقہ مل جائے تو جان مل جائے۔ میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ دین کی مشقت تمباکو کی مشقت کے برابر بھی نہیں۔ جب مزہ آجاوے گا تو یہ حالت ہوگی کہ ذرا سی کمی ہونے سے غم سوار ہوجائے گا۔ اسی کو تو کہتے ہیں: بر دلِ سالک ہزاراں غم بود