اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے۔ چوتھی بہوڑے کا الگ ہونا چاہیے ،وہ بھی اسی کے قریب لاگت میں تیار ہوا۔ پھر فرمایش ہوتی ہے کہ جہیز میں دینے کوبیس پچیس جوڑے اور ہونے چاہییں۔ غرض کپڑے ہی کپڑے میں سینکڑوں روپے لگ جاتے ہیں۔ جہیز میں اس قدر کپڑے دیے جاتے ہیں کہ ایک بار میں ضلع میرٹھ کے ایک گاؤں میں گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہاں ایک بہو صرف کپڑاپندرہ سو روپے کا لائی ہے۔ برتن اور زیور اور لچکے گوٹے اس سے الگ تھے۔ میں نے بعض گھروں میں دیکھا ہے کہ جہیز میں اتنے کپڑے دیے گئے تھے کہ لڑکی ساری عمر بھی پہنے توختم نہ ہوں۔ اب وہ کیا کرتی ہے، اگرسخی ہوئی تو منہ ملاقات کی جگہ بانٹنا شروع کردیا۔ایک جوڑا کسی کو دیا، ایک کسی کو۔ اوربخیل ہوئی تو صندوق میں بند کرکے رکھ لیے۔ پھر بہت سے جوڑوں کو تو پہننا بھی نصیب نہیں ہوتا، وہ یوں ہی رکھے رکھے گَل جاتے ہیں۔ غرض اس فضول خرچی کے ساتھ عورتیں خاوند کامال برباد کرتی ہیں۔ بھلا جہیز میں اتنے کپڑے دینے کی کیاضرورت ہے؟ مگر کیوں کر نہ دیں۔ اس میں نام بھی ہوتاہے کہ فلانی نے اپنی بیٹی کو ایسا جہیز دیا اور اتنا اتنا دیا، بس شیخی کے واسطے مرد کاگھر برباد کردیا جاتاہے۔عُقَلا کا طرز اورایک حکایت : میں نے ایک تعلق دار کی حکایت سنی جو بہت بڑے مال دار ہیں کہ انہوں نے اپنی لڑکی کا نکاح کیا اور جہیز میں صرف ایک پالکی دی اور ایک قالین اور ایک لوٹا اور ایک قرآن مجید۔ اس کے سوا کچھ نہ دیا، نہ برتن، نہ کپڑے۔ بلکہ اس کے بجائے ایک لاکھ روپے کی جائیداد بیٹی کے نام کردی اورکہا کہ میری نیت اس شادی میں ایک لاکھ روپیہ خرچ کرنے کی تھی اور یہ رقم اس کے واسطے پہلے ہی تجویز کرلی تھی۔خیال تھا کہ خوب دھوم دھام سے شادی کروں گا، مگر پھر میں نے سوچا کہ اس دھوم دھام سے میری بیٹی کو کیا نفع ہوگا؟ بس لوگ کھاپی کر چل دیں گے، میرا روپیہ برباد ہوگا اور بیٹی کو کچھ حاصل نہ حصول۔ اس لیے میں نے ایسی صورت اختیار کی جس سے بیٹی کو نفع پہنچے اور جائیداد سے بہتر اس کے لیے نفع کی کوئی چیز نہیں۔ اس سے وہ اور اس کی اولاد پشتہا پشت تک بے فکری سے عیش کرتے رہیں گے۔ اور اب کوئی مجھے بخیل اور کنجوس بھی نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ میں نے دھوم دھام نہیں کی تو رقم اپنے گھر میں بھی نہیں رکھی۔ دیکھو! یہ ہوتاہے عُقَلا کا طرز۔ اگرخدا کسی کو دے تو بیٹی کے جہیز میں بہت دینا برا نہیں، مگر طریقے سے ہونا چاہیے جولڑکی کے کام بھی آوے، مگر عورتوں کو کچھ نہیں سوجھتا۔ یہ تو ایسی بے ہودہ ترکیبوں سے روپیہ برباد کرتی ہیں جن سے اُن کو کچھ