اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہم نے اپنے کلام کو اس واسطے نازل کیا ہے کہ اس میں غور کیا کریں اوراس پر عمل کیا کریں۔ گو اس کی تلاوت میں بھی ثواب ہے اور وہ خالی تلاوت بھی ثواب سے خالی نہیں، مگر اس آیت نے یہ بات بتلادی کہ اصلی غرض صرف یہ ہے کہ مضامین کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ مگر ہماری یہ حالت ہے کہ تدبر نہیں کرتے، سوچتے نہیں، ذہن میں مضامین کا تکرار نہیں کرتے۔حالاںکہ دیکھا جاتاہے کہ اگر کسی کو خارش کا مرض ہوجاوے اور اس کو کوئی اس کا نسخہ مل جائے تو وہ بار بار اس کو ذہن میں رٹتاہے تاکہ یاد رہے ،پھر اس کا استعمال کرتاہے محض اس خیال سے کہ خارش بُرا مرض ہے۔ سو اگر اسی طر ح سے وعظ کو تھوڑا ہی سناجائے ،مگر اس کو یاد کیا جائے اور اس کاذہن میں تکرار واعادہ کیاجائے تو جو سنا جائے گا ضرور یاد رہے گا۔ پھر عمل کا اہتمام کیا جائے تو اس طریقہ سے دو،چار وعظ میں پوری اصلاح ہوسکتی ہے۔ اسی واسطے حق تعالیٰ ایک موقع پر ارشاد فرماتے ہیں: {اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌo}(ق:۳۷) یعنی جس کے قلب ہو یا کانوں کو متوجہ کرے۔ مراد یہ کہ قلب کو حاضر کرے اور کان لگائے ،اس کے واسطے اس میں نصیحت ہے اور ایسے ہی شخص کو نفع ہوتاہے۔ چناںچہ ایک موقع پر فرماتے ہیں: {وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ0}(الذاریات:۵۵) اور آپ نصیحت کیجیے، کیوںکہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔ وجہ اس نفع کی وہی ہے کہ وہ قلب حاضر کرکے اور کان لگا کرسنتے ہیں۔قرآن نافع ہے اورپھر نفع نہیں ہوتا کیا بات ہے؟ خلاصہ یہ کہ اس آیت سے معلوم ہواکہ وعظ مسلمانوں کو نفع دیتا ہے اور جب وعظ کانافع ہونا حق تعالیٰ بیان فرما رہے ہیںتو نعوذ باللہ (ہم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں)! یہ تو احتمال ہی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کا بیان فرمایاہوا کوئی امر خلافِ واقع ہو۔ مگر ظاہر میں شبہ ہوتاہے کہ قرآن شریف سے تو اس کا نافع ہونا معلوم ہوا، مگر باوجود اس کے بعض جگہ نفع نہیں ہوتا، یہ کیا بات ہے؟ تو جواب اس کا یہی ہے کہ نفع کی وہی شرط ہے: