اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
برابر دیتے ہیں، کوئی عذاب نازل نہیں فرماتے۔ اور وجہ یہی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب میرے محکوم ہیں، میرے سوا ان کا کون ہوسکتا ہے اور جو کچھ بدتمیزیاں کرتے ہیں اپنی حماقت سے کرتے ہیں۔ اس واسطے بندوں کی ہر طرح رعایت فرماتے ہیں۔ یہی معاملہ ہم کو اپنے محکومین کے ساتھ کرنا چاہیے۔ چناںچہ جن بزرگوں کے صاحب زادے کا ذکر کررہاہوں وہ اپنی بیوی کی بہت رعایت کرتے تھے۔ حالاںکہ وہ فضول خرچ تھی، لیکن یہ اس کو نباہتے تھے اور انھوںنے اپنی اس فضول خرچ بیوی کانام باولی رکھاتھا۔ جب اس کی کوئی بات کرتے تو یوں کہا کرتے تھے کہ میری باولی ایسی ہے اور میری باولی ویسی ہے۔ وہ اللہ والے تھے، ان کی نظر عیبوں پر نہ پڑتی تھی بلکہ ایک خوبی پر پڑتی تھی جس کے سامنے سب عیوب مٹ جاتے تھے وہ ایک بہت بڑی صفت تھی۔ خدا کے فضل سے ہمارے یہاں کی شریف بیبیوں میں سب ہی میںوہ صفت موجود ہے جو بہت ہی زیادہ قابلِ قدر ہے۔ اور جب کبھی کوئی اس بی بی کی مذمت کرتا تو وہ اسی خوبی کاذکر فرماکر جواب دیتے۔ وہ یہ کہ اگر خاوند بے توجہی سے یا اورکسی وجہ سے لڑ بھڑ کر یا ناداری کی وجہ سے یاقید ہوکر گھر سے چلاجائے اورپچاس برس تک باہر رہے، اپنی خبر تک بھی نہ دے کہ میںمرگیاہوں یا زندہ ہوں اور بیوی کی معاش بھی کوئی نہ ہو، اس پربھی وہ جس وقت آئے گا بیوی کو اسی کونے میں بیٹھا دیکھ لے گا جس میں چھوڑگیا تھا۔ آنکھوں سے دیکھ لے گا کہ نامراد مرر ہی ہے، سڑ رہی ہے، مُردوں سے بدتر حالت ہے، مگر یہ نہیں ہوا ہوگا کہ امانت میں خیانت کی ہو یاکسی اور پر نگاہ ڈالی ہو۔ یہ صفت ایسی ہے کہ اس کے واسطے سب نازگوارا کیے جاسکتے ہیں۔ اس صفت کے سامنے کسی عیب پر بھی نظر نہیں پڑنا چاہیے۔اہل اللہ زن مرید نہ تھے بلکہ قدرشناس تھے اللہ والوں نے جو اپنی بیبیوں کی بہت رعایتیں کی ہیں جن کو سن سن کر تعجب ہوتاہے، ان کا منشا ایسی ہی صفات تو ہیں۔ وہ زن مرید نہ تھے بلکہ قدر شناس تھے۔ انھوں اچھی اچھی نیتوں سے تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ایک بزرگ کو ان کی بیوی بہت دق کرتی تھی ایک بزرگ تھے جن کی بیوی ان کو بہت ستاتی تھی ،یہاںتک کہ لوگوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ بیوی ان کو بہت دق کرتی ہے۔ بعض لوگوںنے عرض کیاکہ حضرت! ایسی بیوی کو طلاق دے دینا چاہیے۔ فرمایا :طلاق تو میرے اختیار میں ہے، مگر یہ