اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کامادہ بہت کم ہے۔ تو آج کل کے اعتبار سے تو عدل قریب قریب قدرت سے خارج ہے۔ پھر جس غرض کے لیے دوسرا نکاح کیاجاتاہے اس کا کیا بھروسہ ہے کہ دوسرے نکاح سے وہ حاصل ہو ہی جائے گی، ممکن ہے کہ اس سے بھی اولاد نہ ہو تو پھرکیا کرلوگے؟ بلکہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بی بی کو بانجھ سمجھ کر دوسرا نکاح کیا اور نکاح کے بعد پہلی ہی بیوی کے اولاد ہوئی، تو خوا ہ مخواہ ایک محتمل امر کے لیے اپنے کو عدل کی مصیبت میںگرفتار کرنا اچھا نہیں۔ اور جو عدل نہ ہو تو پھر دنیا وآخرت دونوں کی مصیبت سر پر رہی۔ لوگ زیادہ تر اولاد کے لیے ایسا کرتے ہیں اور اولاد کی تمنا اس لیے ہوتی ہے کہ نام باقی رہے۔تونام کی حقیقت سن لیجیے کہ ایک مجمع میںجاکرذرالوگوں سے پوچھیے کہ پردادا کا نام بہت سوں کو معلوم نہ ہوگا۔ جب خود اولاد ہی کو اپنے پردادا کانام معلوم نہیںتو دوسروں کو خاک معلوم ہوگا، تو بتلائیے نام کہاں رہا؟اولاد سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی فرماںبرداری سے نام چلتاہے : صاحب !نام اس سے چلتا ہے:{وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَO} (الشعراء:۸۴)خدا کی فرماںبرداری کرو، اس سے نام چلے گا۔ اولاد سے نام نہیں چلا کرتا، بلکہ اولاد نالایق ہوئی تو اُلٹی بدنامی ہوتی ہے۔ اور نام چلا بھی تو نام چلنا ہی کیاچیز ہے جس کی تمنا کی جائے۔ اور حضرت ابراہیم ؑ نے جو اس کی تمنا کی ہے تو اس سے صرف نام کاچلنا مقصود نہ تھا، بلکہ ان کا مقصود یہ تھا کہ لوگ ہماری اقتدا کریں گے اور ہم کو ثواب ہوگا۔ اسی لیے اس کے ساتھ فرماتے ہیں: {وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِO}(الشعراء:۸۵) اے اللہ! مجھے جنت کے وارثوں میںکردیجیے۔ تو اصل نام چلنا تو یہ ہے کہ قیامت میں رسوائی نہ ہو اور وہاں اعمالِ صالحہ کی بدولت علی رؤوس الاشہاد تعریف ہو،اور یہ بات اولاد سے حاصل نہیں ہوتی ،بلکہ نیک اعمال سے حاصل ہوتی ہے اس میں کوشش کرنی چاہیے۔ اور یوں کسی کو طبعی طور پر اولاد کی بھی تمنا ہو تو میں اس کو بُرا نہیں کہتا، کیوں کہ اولاد کی محبت انسان میں طبعی ہے۔چناںچہ بعض لوگ جنت میں بھی اولاد کی تمنا کریں گے، حالاںکہ وہاں نام کا چلنا بھی مقصود نہ ہوگا، کیوں کہ جنت کے رہنے والے کبھی فنا ہی نہ ہوں گے، بلکہ وہاں اس تمنا کا منشا محض طبعی تقاضا ہوگا۔ تو میں اس سے منع نہیں کرتا، میرا مقصود یہ ہے کہ اس طبعی تقاضے کی وجہ سے عورت کی خطا نکالنا کہ تیری اولاد نہیں ہوتی یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں بڑی غلطی ہے۔ اور اس قسم کے غیر اختیاری جرائم نکال کراُن سے خفا ہونا اوراُن پر زیادتی کرنا ممنوع ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: {فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًاO}(النساء:۱۹)