اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بے نمک کھچڑی کھالینے پر بخشش میں نے اپنے ایک استاد کو خواب میں دیکھا۔ پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مجھے بخش دیا۔ میںنے پوچھا: کس بات پر بخش دیا؟ فرمایا: ایک ذراسی بات پر، وہ یہ کہ ایک روز گھر میںکھچڑی پکی تھی، اس میں نمک ٹھیک نہ تھا۔ میں نے اس کو حق تعالیٰ کی نعمت سمجھ کر چپکے بیٹھ کر کھالیا، کچھ تکرار نہیںکیا۔حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمیں تمہاری یہ بات پسند آئی، لہٰذا تم کو بخش دیا۔ ہم تو اس بنا پر ان کے معتقد تھے کہ وہ بڑے متقی تھے۔ نماز ایسی پڑھتے تھے کہ ذکر وشغل کرتے تھے، بڑے پابندشرع تھے ،مگر بخشش ان کی اس پر ہوئی کہ بے نمک کی کھچڑی خوشی سے کھالی تھی۔حق تعالیٰ کے سامنے کسی کا زہدوطاعت اور اتقا کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ کیوںکہ کوئی بھی یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ ہمارا عمل ان کی شان کے موافق ہے۔ اگر بخشش ہوسکتی ہے تو صرف نظر عنایت سے ہوسکتی ہے ،جس کے لیے ادنی سبب بھی کافی ہوسکتا ہے۔ پھر اس سبب میں کیا مردوںہی کاحصہ ہے؟ عورتوںکانہیں؟ ہم لوگ حدیث پڑھتے ہیں ،جولوگ پلاؤ قورمہ پرناک مارتے ہیں وہ حدیث میں دیکھیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جوکھاناپسند نہیںآیا اس کو چھوڑدیا ، نہ کھایا نہ کوئی برا لفظ اس کے متعلق فرمایا۔ آج کل افراط وتفریط دونوں ہیں۔ یا تو پلاؤ قورمہ پر ناک ماریں یا باوجود رغبت نہ ہونے کے کھائے چلے جاویں اور اس کو بڑی نفس کشی سمجھیں کہ طبیعت لیتی نہیں، مگر زبردستی حلق سے اتارے چلے جاتے ہیں، اسے نفس کی مخالفت نہیں کہتے بلکہ اس کانام زہدخشک ہے۔ شریعت میں اعتدال ہے۔سبحان اللہ! حضور ﷺ نے یہ تعلیم نہیں فرمائی کہ جی نہ چاہتا ہوتوخوامخواہ کھاہی لو، بلکہ تعلیم دی ہے کہ جی چاہے تو کھاؤ ،نہ چاہے تو چھوڑدو، مگر اس کوبرا کہنے کی اجازت نہیں دی۔شریعت میں کھانے کے متعلق اعتدال اعتدال وہی ہے جس کو حضور ﷺ نے کرکے دکھایا۔ کھانا پسند آیا تو کھالیا نہ پسند آیا چھوڑدیا۔ حدیث میں ہے :لَمْ یَعِبْ طَعَامًا یعنی کسی کھانے میں کبھی عیب نہیں نکالا، جیسا ہم کرتے ہیں کہ گھی کم ہے، کچا ہے ،پکاہے۔ یہ سارے نخرے اس لیے ہیں کہ خدا نے دے رکھا ہے۔ کھانے کی قدر بھوکے سے پوچھو ،اس کو یہ نہیں سوجھتا کہ روٹی تازی ہے یا باسی، گھی کم ہے