اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
املاک متمایز نہ ہونے میں دینی اور دنیوی خرابی یہ تو اس معاشرت میں دنیا کی خرابی ہے اور دین کی خرابی یہ ہے کہ دوسرے کی ملک میں بلا اجازت تصرف کرنے سے آدمی گناہ گار ہوتاہے اور وہ چیز ضائع ہوجاوے تو ضامن ہوتاہے، قیامت کا معاملہ بہت نازک ہے۔ تین پیسے جس کے ذمہ رہ جاویں گے اس کی سات سو مقبول نمازیں چھین کر صاحبِ حق کو دلوادی جاویں گی۔ یہ کس قدرخوف کی بات ہے کہ ساری عمر نماز پڑھی اور قیامت میں سب چھین لی گئی۔ یہ نتیجہ ہے گول مول باتوں کا، دنیا بھی برباد کیوںکہ رنجشیں پیدا ہوتی ہیں ،جس سے سارے گھر کی زندگی تلخ ہوجاتی ہے، اور آخرت بھی برباد کہ کی کرائی عبادت اپنے پاس نہ رہی۔ ہمارے یہاں ایک شخص آئے کہ میری بی بی مرگئی ہے، اس کا ترکہ موافق قواعدِ شریعت کے تقسیم کردو۔ میں نے کہا :بی بی کی مملوک چیزوں کی فہرست بناکر میرے پاس لاؤ۔ اس سوال کے جواب میں ان کو اس قدر مصیبت ہوئی کہ پریشان ہوگئے، کیوںکہ پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کونسی چیز ان کی ملک ہے اور کون سی چیز بیوی کی۔میںنے کہا: اس مصیبت کے ساتھ یہ جرمانہ الگ ہے کہ جس چیز میں شبہ رہے وہ سب بی بی کی ملک سمجھی جائے۔ سب وارثوں کو جمع کرو، سب اپنی اپنی چیز الگ کرلیں، جس میں شک ہووہ سب میت کی ملک سمجھو، اس میںمیراث جاری ہوگی۔ چناںچہ یہی کیا اور بڑی مشکل سے ترکہ تقسیم ہوسکا۔ یہ بھی اسی شخص کی دین داری تھی کہ مصیبت اٹھائی اور کام کرکے چھوڑا۔ غرض جیتے جی تو سب کو اچھا معلوم ہوتاہے کہ سب سامان گڑبڑ رہے اور کسی چیز میںکسی کانام لگنا ناگوار معلوم ہوتاہے۔ مگر ایک کے مرنے کے بعد بڑی مصیبت پیش آتی ہے۔ اس خرابی کی وجہ یہ ہے کہ ہماری معاشرت گندی ہے اور بات گول مول رہتی ہے۔ ہم کو ابتدا ہی میں لازم ہے کہ جب کوئی زیور یا کوئی چارپائی بنے یا کوئی چیز خریدی جائے تو اسی وقت زبان سے کہہ دے کہ یہ سامان تمہارا ہے یا ہمارا ہے، بس معاملہ صاف ہوجائے ۔یہ تو اثاثُ البیت کے متعلق ہوا۔گھر کے خرچ میں بھی تصریح ملکیت کی ہونی چاہیے گھر کا خرچ دینے میں بھی یہی گڑ بڑہے۔ میاں جو کچھ کماتے ہیں بی بی کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔بی بی سمجھتی ہے کہ یہ سب مجھے دے دیا، یعنی میری ملک کردیا اور جس طرح چاہتی ہیں کھاتی اڑاتی ہیں۔ اسی میں سے خیرات کرتی ہیں، اسی میں سے اپنے میکہ والوںکو خوب دل کھول کر دیتی ہیں ،کیوںکہ اطمینان ہے کہ میری ملک ہے۔ بعض وقت جب میاں دیکھتے