اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں کہ اس بے دردی کے ساتھ میری کمائی اڑائی جارہی ہے اور باز پرس کرتے ہیں تو بی بی صاحبہ کہتی ہیں کہ یہ رقم تم نے مجھے دے دی تھی، لہٰذا مجھے اختیار ہے۔ جہاں چاہوں خرچ کروں۔ میاں کہتے ہیں :میں تجھے کیوں دیتا،میں نے تو بطورِ امانت دیاتھا۔ غرض خوب تکرار ہوتی ہے۔ یہ خرابی اسی گول مول بات کی ہے۔معاملہ صاف رکھو، جوکچھ دو اس کے متعلق تصریح کردو کہ یہ کس مد میں دیا ہے۔میری رائے یہ ہے کہ بیوی کو جوکچھ گھر کے خرچ کے لیے بھی دو اس کے متعلق بھی تصریح کردو کہ یہ رقم امانت ہے، گھر کے خرچ میں ہی صرف کرسکتی ہو۔بی بی کو جیب خرچ بھی دینا چاہیے لیکن بی بی کایہ بھی حق ہے کہ اس کو کچھ رقم ایسی بھی دو جس کو وہ اپنے جی آئی خرچ کرسکے، جس کو جیب خرچ کہتے ہیں۔ اس کی تعداد اپنی اور بیوی کی حیثیت کے موافق ہوسکتی ہے۔ مثلا روپیہ دو روپیہ، دس بیس ،پچاس روپیہ، جیسی گنجایش ہو ۔یہ رقم خرچ سے علیحدہ دو۔ لیکن صاف کہہ دو کہ وہ رقم تو صرف گھر کے خرچ کی ہے اور یہ رقم تمہاراجیب خرچ ہے، یہ تمہاری مِلک ہے اس کو جہاں چاہو خرچ کرو۔ جب تم جیب خرچ الگ دوگے تو تمہارا یہ کہنے کو منہ ہوگا کہ یہ رقم جوگھر کے خرچ کے لیے دی ہے امانت ہے۔ کیوںکہ آدمی کے پیچھے بہت سے خرچ ایسے بھی لگے ہوئے ہیں جو اپنی ذاتِ خاص کے ساتھ ہیں۔ اگر بیوی کو کوئی رقم ذاتِ خاص کے خرچ کے لیے نہ دی گئی کہ جس کو جیب خرچ کہتے ہیں تو وہ امانت میں خیانت کرنے پر مجبور ہوگی۔ اس صورت میں اس پر تشدد کرنا ایک گونہ ظلم اور بے حمیتی ہے۔ یہ طریقہ ہے صحیح معاشرت کا، اس میں جانبین کا دین محفوظ رہ سکتا ہے، مگر ہم لوگوں کے رسم ورواج کچھ ایسے خراب ہوگئے ہیں کہ اگر اب ایسا کیا جاوے کہ گھر کی چیزوں کو الگ الگ میاں بیوی کے نامزد کیا جاوے تو ایک اچنبھے کی بات معلوم ہوگی اور سب ناک بھوں چڑھانے لگیں گے۔ تمام برادری اور کنبہ میں چرچا ہونے لگے گا۔ چناںچہ ہمارے یہاں ایک بی بی نے ایک کٹورا ہدیۃً دیا، تو میں نے پوچھا: یہ تم نے کس کو دیا ہے ،مجھ کو یا گھر کے لوگوں کو؟ تو اب سوچنے لگیں کہ کیا جواب دوں؟ کیوںکہ وہ تو رسم ورواج کے موافق اس واسطے لائی تھیں کہ گھر میں کام آوے گا۔ اس سے کیا بحث کہ کس کی ملک ہوگا؟ جب وہ پہلے سے نیت کرکے لائی ہی نہ تھیں تو میرے سوال کے جواب میں کیا کہتیں؟ آخر بہت سوچنے کے بعد یوں کہا: اجی! میں نے تو دونوں کو دیا ہے ۔ میں نے کہا :خیر !یہی معلوم ہوگیا کہ یہ کٹورا مشترک ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے یہاں ایک چیز بھی گول مول نہیں۔ مثلاً چارپائیاں گھر میں ہیں، ان میں ایک چارپائی میری ہے،