اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حاصل یہ کہ تین قسم کے فضائل ہوئے: فضائلِ خلقیہ،1 اور فضائل مکتسبہ، اور فضائل اضافیہ۔ اول میں مرد بڑھے ہوئے ہیں۔ دوسرے میں کبھی مرد بڑھے ہوئے ہوں گے، کبھی عورتیں۔ تیسرے میں دونوں برابر ہیں۔فضائل خِلقیہ اب جو فضائل خِلقیہ ہیں ان کی تمنا کرنا اور نہ حاصل ہونے پر دل شکستہ ہونا فضول بات ہے۔ جیسے عورتیں یوں کہیں کہ کاش! ہم بھی مرد ہوتے اور اس حسرت میں رات دن رویا کریں تو اللہ تعالیٰ اس سے منع فرماتے ہیں:{وَلاَتَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ} (النساء:۳۲)۔ کیوںکہ جو چیزمحض وہبی ہے اور ہمارے اختیار کو اس میں کچھ دخل نہیں ،نہ ہم اس کو اپنی سعی وکوشش سے حاصل کرسکتے ہیں ،تو اس کے لیے رونا، رنج کرنا بے ہودہ حرکت نہیں تو اور کیاہے؟ سوائے تضییع وقت کے اس میں کچھ بھی نہیں۔ پھر اس کی دُھن میں آدمی دوسرے ضروری کاموں سے بھی رہ جاتاہے جن کاحصول اختیاری ہے، تو کون عقل مند اس صورت کوپسند کرے گا کہ وہبی غیر اختیاری کے فکر میں رات دن مریں اور اس کے لیے رویا کریں اور تعطّل سے مضرّت میںپڑیں۔ پس شریعت کی یہ تعلیم عین مطابقِ عقل اور بالکل صحیح تعلیم ہے کہ ایسی باتوں کی فکر میں مت پڑو جو تمہارے اختیار سے باہر ہیں۔ مثلاً کوئی رات دن اس رنج میں رویا کرے کہ ہائے! ہم نبی نہ ہوئے ،تو یقینا احمق ہے، کیوں کہ نبوت تو ایک وہبی چیز ہے ،کسب سے کسی طرح حاصل نہیں ہوسکتی تو رونے سے کیا فائدہ؟فضائلِ مکتسبہ کی تمنا جائز ہے اورفضائلِ مکتسبہ میں تمنا کرنا جائز ہے مگر صرف تمنا کرنا کافی نہیں، بلکہ عمل کسب اور ہمت کی ضرورت ہے، اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :{لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا}کہ فضائل مکتسبہ اکتساب سے حاصل کرو کہ ان کامدار صرف کسب پر ہے، ہمت کرو، نری تمنا سے کچھ نہیں ہوتا۔ غرض خلاصہ تعلیم کا یہ ہوا کہ امورِ غیراختیاریہ کی توتمنا بھی نہ کرو اور امورِ اختیاریہ میں ہمت کرو اور یہ وعدہ یاد رکھو کہ کسی کا عمل ضائع نہ ہوگا۔ یہ کیسی پاکیزہ تعلیم ہے۔