اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں پڑھنے کا ہے تو یہ ارادہ فعل اختیاری ہے ،آپ نے یہ کرلیا تو باوجود تہجد کاناغہ ہوجانے کے بھی اس کا ثواب ملے گا۔ اگرآنکھ کھل گئی تو خوش قسمتی ہے، نہ کھلی تو پریشان نہ ہوجیے۔ حاصل یہ کہ آیت {وَلاَتَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ}میںیہ تعلیم ہے کہ امورِ غیراختیاریہ کے پیچھے نہ پڑنا چاہیے۔یہ بات سالکین کے لیے بڑے ہی کام کی ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے۔ یہ بات درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر آگئی اصل بیان عورتوں کے متعلق ہورہاتھا۔کیوںکہ آیت {لاَتَتَمَنَّوْا} کی اصل مخاطب عورتیں ہی ہیں، جیسا کہ شانِ نزول سے معلوم ہوا۔ حضرت اُمِّ سلمہ ؓ نے تمنا کی تھی کہ ہم مرد ہوتے تو اچھا تھا، اس پر یہ آیت اتری جس میں بتادیاگیا کہ ایسی تمنا فضول ہے۔ یہ تو قانونی جواب ہے کہ منع کردیاگیا کہ ایسی تمنا مت کرو۔ اور اس میں ایک راز بھی ہے، وہ یہ کہ خدا تعالیٰ نے جس کو مرد بنایااس کے لیے یہی مناسب تھا اور جس کو عورت بنایا اس کے لیے بھی یہی مناسب تھا۔حق تعالیٰ نے جو کچھ کسی کو دیا وہ اُسی کے قابل تھا ہر شخص کو خدا تعالیٰ نے وہی دیا ہے جو اُس کے لیے مناسب تھا ،اس کی تفصیل کہاں تک کی جاوے، اہلِ بصیرت خود سمجھ سکتے ہیں اور ذرا غور سے ہر موقع پر سمجھ میں آسکتا ہے کہ جس کو جیساحق تعالیٰ نے بنادیا ہے اس کے لیے وہی مناسب تھا،گو ہر شخص دوسرے کو دیکھ کر یہ تمنا کرتا ہے کہ میں ایسا ہوتا اوراپنی حالت پر قناعت نہیں ہوتی۔ لیکن غور کرکے دیکھیے اور سوچیے تو اس کو معلوم ہوگا کہ میرے مناسب وہی حالت ہے جس میں خدا نے مجھ کو رکھا ہے۔آج کل بھی ایسے لوگ موجود ہیں کہ دوسروں کی حالت سن کر تمناکرتے ہیں کہ ہم فلاںہوتے۔ چناںچہ ایک مولوی صاحب تھے جو پڑھے لکھے ذی استعداد تھے۔ حدیث میںحضرت عائشہ ؓ کے فضائل پڑھاتے ہوئے یہ تمنا کی تھی کہ ہائے میں عائشہ ہی ہوجاتا۔ میں نے کہا :جابندئہ خدا! تمنا ہی کرنی تھی تو یہ تمنا کی ہوتی کہ میں ابوبکر صدیق ؓ ہوتا۔ آپ مردسے عورت بننا چاہتے ہیں۔ وہی صاحب ایک دفعہ جنت کے فضائل دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔دوسرے کی حالت کی تمناٹھیک نہیں کاش! میں جنت کا اُلّوہی ہوجاتا۔ میں نے کہا :پھر آپ جنت کو بھی ویران کرتے ۔ (یہ ظریفانہ کلمہ بنابر قولِ مشہور ہے کہ اُلّو کے بیٹھنے سے ویرانہ ہوجاتاہے ،ورنہ اس کی کچھ اصل نہیں) خیر وہ تو جنت ہی کا اُلّو بننا چاہتے تھے، مگر آج کل کا زمانہ