اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھولے بن گئے کہ طبیب ووکیل سے مناقشہ ہی نہیں کرتے، مگر جب دین کا وقت آیا تو سارے زمانہ کے ہوشیار وزِیر ک بن گئے کہ مناقشہ کے لیے تیار ہیں۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ کیوں صاحب! نماز پانچ وقت کیوں فرض ہوئی، زیادہ کم کیوں نہ ہوئی؟ میں نے کہا کہ آپ کی ناک یہاں کیوں لگی؟ گدی پر کیوں نہ لگی، اور میں نے کہا کہ اپنے افعال تکلیفیہ کی حکمت سے پہلے تو اپنے اجزا کی حکمت دریافت کیجیے، کیوںکہ یہ تو آپ کے جسم ہی میں ہیں اور افعال تو پھر بھی خارج ہیں۔ پس عجیب بات ہے کہ ان لوگوں کا مذاق دنیوی معاملات میں اور ہے اور دینی امور میں اور۔ ایک مذاق رکھیے اورایک اصلِ صحیح قائم کرکے اس پر عمل کیجیے۔ یہ نہیں کہ دنیا میں تو اور اصل، اور دین میں اور اصل۔ یہ بحث تھی انتخاب اور اس کے آداب کی۔کتابیں انتخاب کراکر پھر گھر والوں کو سناناچاہیے،خواہ پندرہ منٹ روزانہ ہو : پس ایسا شخص (جس کی صفات پہلے گزر چکیں) جب کتب دینیہ انتخاب کردے تو وہ کتابیں اپنے گھروالوں کو سناؤ۔ زیادہ نہ ہو توپندرہ بیس منٹ ہی سہی۔ مگر سناتے وقت یہ بھی نہ دیکھو کہ کون سنتا ہے، کون نہیں؟’’کس بشنود یا نشنود‘‘ پر عمل ہو ،یعنی کوئی سنے یا نہ سنے ،مگر تم اپنا کام کیے جاؤ۔ گھر میں پڑھنا شروع کردو اور روز سنایا کرو۔ اٹھ کر نہ آؤ، خواہ بگڑ بگڑ پڑیں۔ بہت شخصوں نے بیان کیا کہ کتابیں سناتے سناتے اصلاح ہوگئی۔ کیا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا نام کھٹائی سے بھی کم ہے، کھٹائی کا تو منہ میں اثر ہو، جو ایک حقیر چیز ہے کہ منہ میں پانی بھر آوے اور اللہ تعالیٰ ورسول ﷺ کے نام کا اثر نہ ہو، مگر بات یہ ہے کہ کرے کون؟ کو ن دقّت اُٹھائے؟دینی نصاب بار بار سنایا جائے : اور جو نصاب تجویز کیا جائے گا اس میں ایک بات کی اورضرورت ہے عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی۔ وہ یہ کہ اس نصاب کو ایک دفعہ ختم کر کے اس کو کافی نہ سمجھیں ۔جیسے کسی نے عید کے چاند کی شہادت دی تھی۔ اس سے پوچھا گیا کہ نماز بھی پڑھتا ہے ؟تو آپ کہتے ہیں: نماز کی یوں سنو، ایک مولوی صاحب ہمارے گاؤں میں آئے تھے، جب تو ہم نے نماز پڑھ لی تھی، پھر تو ہماری توبہ ہے۔ سو جیسے اس نے ایک دفعہ پڑھ کر توبہ کر لی تھی، ایسے ہی آج کل بھی کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کتاب سنائی اور الگ، پھر سروکار ہی نہیں۔ مگر اس اصل پر کھانے پر عمل نہیں کیا جاتا۔ کھانا تو دونوں وقت کھاؤ،