اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اورحضرت اُسامہ بن زید ؓ کو سفارش کے لیے تجویز کیا،کیوں کہ وہ حضور ﷺ کے محبوب اور محبوب زادے تھے۔ چناںچہ وہ بھولے بھالے سفارش کرنے بیٹھ گئے۔ حضور ﷺ بہت برہم ہوئے اور فرمایا کہ حدود میں سفارش کرنا پہلی اُمتوں کو ہلاکت میں ڈال چکاہے۔ اس کے بعد ایسی بات فرمائی کہ ہم تو اس کو نقل بھی نہیں کرسکتے ،مگر حضور ﷺ کا ارشاد سمجھ کر نقل کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ واللہ! اگر فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی(نعوذباللہ! نعوذباللہ! نعوذباللہ!) تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا(پھر فاطمہ مخزومیہ تو کیا چیز ہیں؟ چناںچہ ان کا ہاٹھ کاٹاگیا۔ (کذا في أبوداود :۲/۲۵۳) اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ احکامِ شرعیہ میںکسی کی رعایت نہیں کرتے تھے اور نہ کرسکتے تھے۔ تو اگر حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول خلافِ شریعت ہوتا تو آپ ﷺ اُن کی ہر گز رعایت نہ فرماتے اور ضرور تنبیہ فرماتے۔باوجود کمالِ محبت کے حضور اکرم ﷺ حضرت فاطمہؓ کی احکامِ شرعیہ میں رعایت نہ فرماسکتے تھے یہ بات بے شک ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سے حضور ﷺ کو محبت تھی، مگر حضرت فاطمہ ؓ کی ایسی خصوصیتیں ہیں کہ ان میںکوئی ان کا شریک نہ تھا اور برتاؤمیں اُن خصوصیتوں کازیادہ ظہور ہوتاتھا۔ چناںچہ جب حضور ﷺ کہیں سفر میں تشریف لے جاتے تو جاتے ہوئے سب سے اخیر میں حضرت فاطمہ ؓ سے ملتے تھے اور واپسی میں سب سے پہلے ان سے ملتے تھے تاکہ جدائی کازمانہ کم ہو۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ حضور ﷺ کو حضرت فاطمہ ؓ سے کس قدر محبت تھی۔ نیز جب حضرت فاطمہ حضور ﷺ کے پاس تشریف لاتیں تو حضور ﷺ غایت محبت سے ان کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے، تو ان کی محبت کے ساتھ جب حضور ﷺ احکامِ شرعیہ میں حضرت فاطمہ ؓ کی بھی رعایت نہ کرسکتے تھے تو حضرت عائشہ ؓ کی تو کیا رعایت فرماتے؟ پس ثابت ہوا کہ اُن کا یہ کہنا کہ میں حضور ﷺ کی طرف اٹھ کر نہیں جاتی اور اپنے خدا کے سوا کسی کا شکریہ ادا نہیں کرتی، خدا ورسول کے خلاف نہ تھا۔ تو بی بی کا شوہر سے وہ تعلق ہے جس میں اتنی بڑی بات کو خدا ورسول نے گورا کرلیا، ورنہ یا تو حضور ﷺ گرفت فرماتے یا اس پر کوئی آیت ضرور نازل ہوتی۔