ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
میں چونکہ جناب صاحب المناقب الکبیرہ حضرت مولانا حکیم عبد الرحمن صاحب ابقاہم اللہ فیوضہم خود بزرگ اور بزرگ زادہ ( لانہ ابن المولانا احمد علی المحدث السھار نفور ویر حمۃ اللہ علیہ ) ہیں اور ان کا وجود مسعود بطور یادر فتگان باقی ہے جو مستفضین کے لئے بسا غنیمت ہے اور مبصداق اقطب از جانمی جنبد ہمیشہ خانہ دوز اویہ نشین ہیں وہ ہیں اور نا کا سجادہ زبان ہے کہ مشین کی طرح بے صورت کلام الٰہی کے الفاظ کی تلاوہ ہر وقت کر رہی ہے اور دل ہے کہ اس محبوب کی یاد میں معلق ہے - ان اسباب کے علاوہ کبر سنی کی وجہ سے زیادہ دور سفر کے قابل بھی نہیں رہے - آپ کی بہت عرصہ سے تمنا تھی کہ حضرت مجدد الملۃ ادام اللہ انوارہ سے کبھی ہم کلامی صوری کا شرف حاصل ہو اور فرط محبت و عقیدت سے اکثر صادر و وارد سے حضرت کے مزاج اور حالات کا استفسار فرمایا کرتے تھے مگر اتفاقات حسنہ از بسکہ نادار الوجود اور کمیاب ہیں - ایک مدت سے ایسا موقع ہاتھ نہ آیا - اس اثناء میں معارف اگاہ اخوی مولانا عبد الحی صاحب ابقا اللہ استاذ شاہزاد گان والا تبارو پروفیسر کلیہ جامعہ عثمانیہ کی اہلیہ محترمہ جو ایک عرصہ سے علیل اور دائمۃ المرض ہیں - ان کی خواہش ہوئی کہ میری زندگی معرض خطر میں ہے - اگر حضرت مجدد الملۃ سے شرف بیعت نصیب ہوجاوے تو مجھے سعادت دارین حاصل ہوجائے گی - بناء علیہ صاحبہ موصوفہ کی درخواست جس کے ساتھ حضرت حکیم صاحب دام فیضہ کی ذاتی تمنا بھی شامل تھی - حضرت کی خدمت اقدس میں پہنچادی گئی - حضرت نے اپنے اس اصول سے کہ شفقت علی عامۃ الخلق ایک اہم انسانی فریضہ ہے - بلا کسی عذر کے قبول فرمالیا - اس کے بعد بعض ضروری شروط کا تصفیہ ہوا اور خاص حضرت کی ذات بابرکات کے لئے سیکنڈ کلاس کا کرایہ اور ہمراہی خادم کے لئے تیسرے درجہ کا کرایہ معہ ضروری سفر خرچ بھیج دیا گیا ونیز خود حضرت اقدس بھی اس کے متمنی تھے کہ جناب مولانا حکیم صاحب کی زیارت سے محفوظ ہوں - یہ بھی ایک قوی وجہ تھی انکار نہ کرنے کی اور تاریخ ورود حیدر آباد 23 ذی الحجہ 1342 ھ قرار پائی - مگر حضور کا ارشاد تھا کہ میرے آنے کی اطلاع اور شہرت عام نہ ہو - ان غلاموں نے تو پوری تعمیل کی - بھلا آفتاب پر کہیں پردہ پڑسکتا ہے - اس کے دوسرے روز ہی لوگوں کی آمد شروع ہوئی - ہر