ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
التصدق ہے ۔ اوراگر خود ہی صدقہ کا اہل ہوتو بعض علماء کی رائے پرنہ کہ خود حضرت مولانا کے مسلک پر اسکو اپنے صرف میں بھی لاسکتاہے ۔ خلاصہ یہ کہ فتوی مذکور ہےہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمانوں کو سود لینا ۔ اور سود کو اپنے ذاتی اورقومی و ملکی کاموں میں صرف کرناجائزہے پس مؤلف کا اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس وقت نہ صرف بعض افراد قوم مقروض ومسکین ہیں بلکہ مجموعی طور پر کل قوم دیگر اقوام دنیا کے مقابلہ میں حددرجہ مقروض ومسکین ہے ۔ اورکل قوم کی قرض داری اور مسکنت دور کرنے کا یہ ہی ذریعہ ہےکہ پس اندازہ کیا ہوا ۔ روپیہ اور اس کامنافع ذاتی اور قومی اور ملکی کاموں میں ہے ۔پس حضرت کا یہ فتوی قوم کے حق میں آب حیات کاکام کے گا ۔ ۔۔ بالکل غلط ہے اور سراسر تحریف ہے ۔ اب ہم یہ بتلانا چاہتے ہیں ۔ کہ فتوی مذکور مؤلف نے نتیجہ مذکور نکالنے میں غلطیاں کی ہیں ۔: غلطی اول ۔ حضرت مولانا نے سود لینے کو نہ کسی امیر کے لئے جائز کہا تھا اور کسی غریب کے لئے مولف نے امیر و غریب سب کے لئے جائز کر دیا ۔ غلطی دوم ۔ حضرت مولانا نےسود کا مصرف صرف فقراء کو قرار دیا تھا ۔مؤلف نے اغنیاء اور دولت مندوں کو بھی اس کا مصرف بنادیا۔ غلطی سوم ۔ حضرت مولانا کے کلام میں مسکین سے مراد شرعی مسکین تھا ۔ مؤلف نے مسکین اضافی کو بھی اس میں داخل کردیا ۔ غلطی چھارم ۔ حضرت مولانا کے کلام میں مساکین سے مراد افراد تھے مؤلف نے قوم مسلمان ہیئت مجموعی کو بھی ان میں ڈھونس دیا ۔ غلطی پنجم ۔ جب مؤلف نے قوم ہیئت مجموعی کو اضافۃ مفلس قراردے کر سود کو اسکے لئے حلال کردیا تو اسکا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اب مسلمانوں پر نہ زکوۃ فرض ہے ۔ نہ حج ۔ نہ قربانی ۔ نہ صدقہ فطر وغیرہ حالانکہ یہ نتیجہ بالکل غلط ہے اور کوئی مسلمان اسے قبول نہ کرے گا ۔ اب مسلمان انصاف کریں کہ جو شخص اردو کلام کےسمجھنے میں اتنی اور ایسی فاحش غلطیاں کرے وہ قرآن و حدیث میں اجتہاد کرنے کا کہاں تک حق رکھنا ہے ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ مؤلف نے خود اپنے نفس پر بھی اور مسلمانوں پر بھی نہایت ظلم کیا کہ بدون علم اور فہم کے ایک شرعی مسئلہ پر کلام کر