ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
اصرار کر کے اپنے گھر لے گیا ۔ مولانا مطفر حسین صاحب کا ایک اور قصہ ایک قصبہ بڈولی ہے ایک دفعہ مولانا وہاں کی سرائے میں ٹھیرے برابر میں ایک بنیا مع اپنے لڑکے کے ٹھیرا ہوا تھا ۔ اور لڑکے کے ہاتھ میں سونے کے کڑے تھے ۔ مولانا سے اس کی بات چیت ہوتی رہی جیسا کہ سفر میں عادت ہے کہ مسافر آپس میں بات چیت کیا کرتے ہیں ۔ اس نے پوچھا میاں جی کہا ں جاؤ گے ۔ مولانا نے سب بتادیا کہ فلاں جگہ اور فلاں راستہ سے جاؤنگا ۔ اس کے بعد مولانا تہجد پڑھ کر روانہ ہو گئے ۔ اس لڑکے کے ہاتھ میں سے کسی نے کڑے اتارلئے بنیاد اٹھا تو دیکھا کڑے ندارد ہیں بس اس کی تو روح فنا ہو گئی دیکھا کہ وہ میں جی بھی نہیں ہیں جن سے رات بات چیت ہو رہی تھی ۔ اسنے کہا ہو نہ ہو وہی لے گئے یہ کوئی ٹھگ تھا وہ سیدھا اسی راستہ پر روانہ ہوا جس پر مولانا نے جانیکا ارادہ بیان کیا تھا ۔ یہاں تک کہ مولانا اس کو مل گئے ۔ بس پہنچتے ہی اس نے ایک دھول رسید کی ۔ مولانا نے کہا کیا ہے ؟ کیا پوچھتا ہے ۔ کیا ہے ۔ لاکڑے کہاں ہیں ؟ مولانا نے کہا بھائی میں نے تیرے کڑے نہیں لئے ۔ کہا ن باتوں سے کیا چھوٹ جائے گا ۔ میں تھجے تھانہ لے چلوں گا ۔ کہا عذر نہیں میں تھانہ بھی چلا چلوں گا ۔ غرض وہ مولانا کو پکڑتے ہوئے جنھنجانہ کے تھانہ میں پہنا اتفاقا تھا نیدار مولانا کا بڑا معتقد تھا اس نے دیکھا کہ مولانا آرہے ہیں کھڑا ہو گیا اور دور سے ہی آلیا یہ دیکھ کر بنئے کے ہوش خطا ہوگئے کہ یہ تو کوئی بڑے شخص معلوم ہوتے ہیں اور ڈرا کہ اب جوتے پڑیں گے ۔ مگر مولانا اس سے کہتے ہیں بھاگ جا بھاگ جا تجھے کوئی کچھ نہ کہے گا ۔ تھانیدار نے مولانا سے پوچھا یہ کون تھا کہا تم اسے کچھ نہ کہو جانے دو اس کی چیز کھوئی گئی ۔ اس کی تلاش میں آیا تھا ۔ دیکھئے کیا بے نفسی ہے ۔ لطف یہ کہ نر عفو ہی نہیں بلکہ مولینا اس کے احسان مند بھی ہوئے ۔ چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ اس سے مجھے بڑا نفع ہوا ۔جب لوگ مصافحہ کرتے ہیں اور میرے ہاتھ پیر چومے جاتے ہیں تو میں نفس سے کہتا ہوں تو وہی تو ہے جس کے ایک بنئے نے دھول لگائی تھی بس اسی سے عجب نہیں ہوتا ۔