ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
کاملین کی صحبت کے فوائد حالات اور صحبت کا ذکر ہوا تو اپنی حکایت بیان فرمائی کہ میں حجرہ میں دیوبند میں رہتا تھا ۔ خشیت کا غلبہ ہوا مولانا محمد یعقوب صاحب سے جا کر عرض کیا کہ بہت خوف ہے کوئی بات ایسی فرمائیے جس سے اطمینان ہو فرمایا توبہ کرو کفر کی درخواست کرتے ہو ۔ لايامن مكر الله الا لقوم الخسرون بس آنکھیں کھل گئیں ۔ کامل کے پاس ہونے کے یہ فائدے ہیں ۔ بعض لوگوں نے اپنے حالات مجھ سے بیان کئے ہیں ۔ میں نے کچھ مختصر کلمات ان کی حالت کے مناسب کہہ دیئے اس پر انہوں نے کہا عمر بھے کی گمراہی سے آج نکلے بعض مرض بالکل مخفی ہوتے ہیں ۔ مریض کو ان کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ اس واسطے ان کے علاج کا بھی خیال نہیں ہوتا ۔ جاننے والے کے پاس بیٹھنے سے ان کا علم ہوتا ہے ۔ اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرض تو ہم میں موجود ہے اور مدتیں گذر گئیں اور علاج اس کا بہت سہل تھا مگر توجہ کی ضرورت تھی ۔ اس وقت اس کا علاج بھی ہو گا صحبت ایسی چیز ہے حافظ عبد الحی بہت مشوش رہتے تھے مولانا گنگوہی سے بیعت تھے مجھ سے بھی اپنی تشویشات بیان کیں میں نے تسلی کی تو کہنے لگے بس یہی مولانا کرتے ہیں ۔ جب میں کچھ حال کہتا ہوں تسلی کر دیتے ہیں ۔ میں نے کہا توبہ کیجئے کیا آپکا خیال یہ ہے کہ غلط تسلی کر دیتے ہیں ۔ اور واقع میں وہ مضمون تسلی کا صحیح نہیں ۔ شیخ کی ترغیب وترہیب حسب موقع ہوتی ہیں ۔ آپ شیخ کو خائن سمجھتے ہیں اگر شیخ تسلی کرتا ہے تو تم کو پریشانی جائز نہیں ۔ قول ملاحدہ کا جواب کہ جنت ودوزخ کا ذکر بطور تسلی ہے ۔ اس پر یاد آیا کہ ملحدین کہتے ہیں جنت ودوزخ کا بیان قرآن وحدیث میں صرف تسلی کے لئے اور ڈرانے کے لئے ہے تاکہ جنت کی طمع سے اور دوزخ کے خوف سے اعمال صالحہ کریں اور واقع میں جنت دوزخ کچھ نہیں ۔ میں کہا کرتا ہوں اگر بالفرض واقع میں ایسا ہی ہو تب بھی اس کی نفی نہ کرنا چاہئے ورنہ جب لوگوں کو معلوم ہوگا ۔ کہ وہ کچھ نہیں تو پھر وہ مصلحت ترغیب وترہیب ہی کی فوت ہو جائے گی ۔ یہ بغاوت ہے کہ جس چیز کو خدا نے مفید سمجھ کر کیا تم اس میں حارج ہو ۔