ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
نہیں بھائی تو نے سچ کہا تھا تیری لگی کو میں کیا جانوں ۔ فرمایا حضرت والا نے حق تعالی سے تعلق پیدا ہونے کے بعد جو تغیر ہو جاتا ہے اس سے لوگ تعجب کرتے ہیں ۔ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ ایک مخلوق کی محبت میں پڑجانے سے کیا تغیر ہو جاتا ہے در اصل لوگ معذور ہیں ۔ الے ترا خارے بہ پاشکستہ کے دانی کہ چیست حال شیراینکہ شمشیر بلاء بر سر ، خورند تصنع اور لا یعنیت آجکل داخل عادت ہے غالبا تصنع اور لا یعنیت کا ذکر ہوا تو فرمایا یہ عادتیں ایسی داخل ہوئی ہیں کہ خواجہ عزیز الحسن صاحب پر " البشیر " اخبار نے کچھ اعتراض کئے تھے اس کے جواب " البرید " اخبار نے دیئے ۔ اور ایک پرچہ میرے پاس بھی تھانہ بھون بھیجا تو میں نے لکھا کہ میرے پاس یہ پرچہ بھیجنے میں کیا مصلحت ہے بس جواب ندارد آجکل یہ عقلیں رہ گئیں ہیں ۔ اور ان عقلوں سے دین کا تراجم کرنا چاہتے ہیں ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ سفر سے وطن میں آئے تھے ۔ وطن میں بھی نماز قصر پڑھی اور لطف یہ کہ مقیم امام کیساتھ دو رکعت پر امام کے قبل سلام پھیر دیا اور بڑے شخص تھے کوئی معمولی آدمی نہ تھے مگر دین سےے ایسی اجنبیت ہوئی ہے کہ روز مرہ کے مسائل بھی معلوم نہیں اور پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے پھر ایسے لوگ دین کوئی ایسی چیز نہیں جس کے لئے کچھ بھی احتیاط کی ضرورت ہو ۔ جس طرح بھی کر لیں دین ہی ہوجاتا ہے ۔ دین کے تمام اجزا کے لئے عقل کو کافی سمجھتے ہیں ۔ حالانہ فنون منقولہ میں رائے کیسے کام دے سکتی ہے ۔ دنیا کے تو کسی کام میں دخل نہیں دیتے زراعت کے متعلق کوئی ان سے رائے لے تو صاف کہہ دینگے بھائی یہ کام جس کا ہے وہی رائے دے سکتا ہے ۔ کسی کا شت کاار سے پوچھو نہ معلوم دین کیوں سب کا تختہ مشق ہو گیا ہے ۔ عقل نہ بالکل قابل ترک ہے نہ بالکل قابل اعتبار اصول دین معقول ہیں اور فروع منقول میں کہا کرتا ہوں کہ نہ تو بالکل قطع نظر چاہئے عقل سے اور نہ بالکل مدار عقل پر چاہئے صحیح طریق یہ ہے کہ دین کے اصول تو ہیں وہ پورے طور سے عقلا ثابت ہیں چنانچہ ان ابحاث سے علم کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ اور ان کے ثبوت کے بعد فروع ہیں ۔ منقول ان میں عقل کو دخل دینا غلطی